Maktaba Wahhabi

266 - 303
بن گئی اور ہم اس کے شرعی و قانونی حقدار بن گئے۔لیکن ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ پنچ یا عدالت کے فیصلہ سے ناجائز جائز میں اور حرام حلال میں نہیں بدل جاتا۔پنچ یا عدالتیں غیب داں نہیں ہوتیں،وہ تو ظاہری دلیلوں اور ثبوتوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرتی ہیں،لہٰذا اگر کسی نے ان ذرائع سے غلط فیصلہ حاصل کرلیا تو وہ اللہ کے یہاں مجرم ہوگا اور اسے اس کی سزا بھگتنی ہوگی۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک میں ایک انسان ہی ہوں،اور تم لوگ میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو(تاکہ میں فیصلہ کروں)اور شاید تم میں سے بعض آدمی اپنی دلیل پیش کرنے میں دوسرے(فریق)سے زیادہ تیز اور چرب زبان ہو،پس میں جو کچھ سنوں(اور اس سے جس نتیجہ پر پہنچوں)اس کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کردوں(حالانکہ وہ حق پر نہ ہو)تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی کے حق کا فیصلہ کردوں تو(دراصل)یہ میں اس کے لیے جہنم کی آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں‘‘(بخاری ومسلم) اس حدیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حاکم یا عدالت کے فیصلہ سے حقائق تبدیل نہیں ہوا کرتے،اگر کسی وجہ سے زید کی مملوکہ چیز کو عدالت غلطی سے بکر کی چیز قرار دے تو بکر کے لیے اس کا لینا اور اس پر قابض ہونا جائز نہیں، اگر وہ جانتا ہے کہ در حقیقت وہ اس کی چیز نہیں ہے۔اگر اس پر وہ قبضہ کرتا ہے تو گویا جہنم کا ٹکڑا لیتا ہے۔ ایک قابل توجہ امر یہ بھی ہے کہ بعض حضرات بلا تحقیق بلکہ بلا علم دوسروں پر زمین غصب کرنے کا الزام لگاتے پھرتے ہیں،وہ یا تو سنی سنائی باتوں پر بھروسہ کرتے ہیں یا محض کسی سے دشمنی کے سبب ایسا کرتے ہیں،ایسے لوگوں کو ایک واقعہ سے عبرت حاصل کرنی چاہئے: حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ جو ایک جلیل القدر صحابی ہیں ان کے بارے میں حضرت عروہ بن زبیربیان کرتے ہیں کہ ارویٰ بنت اوس نامی عورت نے ان سے جھگڑاکیا اور
Flag Counter