مشترکہ خاندانی نظام ہندوستان کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے معاشرتی نظام پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت مشترکہ خاندانی نظام پر نہ صرف عمل پیرا ہے بلکہ اس کو عظمت واحترام کی نظر سے دیکھتی ہے، اسے خیر وبرکت کا ذریعہ سمجھتی ہے اور بسا اوقات اس طرز معاشرت کو اسلام کا مطلوب ومقصود بھی گردانتی ہے۔اس مشترکہ خاندانی نظام میں بالعموم ایک شخص کی حکمرانی ہوتی ہے۔ایک ماں باپ کی اولاد پھر اولاد کی اولاد جن کی مجموعی تعداد بسا اوقات پچیس پچاس سے بھی متجاوز ہوتی ہے سب ایک بڑے مکان میں رہتے ہیں اور ایک نظام کے تابع ہوتے ہیں، گھر کے کمانے والے تمام افراد اپنی کمائی لے آکر گھر کے مالک کو دیتے ہیں، سب کا کھانا عموما ایک جگہ بنتا ہے اور بظاہر گھر کے تمام افرادکو مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس دوسرا خاندانی نظام وہ ہے جس میں صرف میاں بیوی اور ان کی غیر شادی شدہ یا نابالغ اولاد ایک ساتھ مستقل گھر میں یا بڑے گھر کی مستقل اور علحدہ یونٹ میں رہتے ہیں، بچوں کے بڑے ہونے اور شادی کے مراحل سے گزرنے کے بعد انہیں ایک مستقل گھر میں منتقل کردیا جاتا ہے اور آمدوخرچ اور دیگر امور کے وہ خود ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اجتماعیت اچھی چیز ہے اور اسلام نے اس پر بہت زور دیا ہے، مشترکہ خاندانی نظام اجتماعیت کا مظہر سمجھا جاتا ہے اوریہ اس نظام کا یقینا مفید پہلو ہے، لیکن اس نظام کے بہت سارے مضر پہلو بھی ہیں جو عرصہ دراز سے چھائے ہوئے اس نظام پر نظر ثانی کا تقاضا کرتے ہیں۔چونکہ یہ نظام نسلاً بعد نسل بلا چوں وچرا رائج ہے اور اسے قبول عام حاصل ہے اس لیے اس کی مضرتوں اور سلبیات پر نظر رکھنے والے یا ان کو جھیلنے والے اس |