Maktaba Wahhabi

67 - 303
حیات نبوی کے آخری ایام موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ، چاہے وہ کسی بھی دین ومذہب کا ماننے والا ہو حتی کہ دہری اور ملحد بھی اس سے انکار نہیں کرسکتے ، انبیائے کرام جو افضل الخلائق اور اللہ کے چہیتے ہوا کرتے ہیں وہ بھی اس قانون سے مستثنی نہیں کیے گئے ، نبی آخر الزماں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو امام الانبیاء اور سید المرسلین تھے، ان کا عند اللہ کیا مقام ومرتبہ تھا وہ کسی سے مخفی نہیں ، لیکن آپ کو بھی مخاطب کرکے مولی جل شانہ نے فرما دیا:﴿إِنَّکَ مَیِّتٌ وَإِنَّہُم مَّیِّتُونَ﴾(زمر:۳۰) ’’ آپ بھی(اے نبی)موت سے دوچار ہوں گے اور وہ لوگ بھی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کی ابتدا ۲۹؍ صفر ۱۱ھ؁ کو اس وقت ہوئی جب آپ مدینہ کے قبرستان بقیع سے ایک جنازے کے بعد واپس آرہے تھے ، آپ کو سر درد شروع ہوا ، اور تیز بخار لاحق ہوا ، بخار کی شدت اس قدر تھی کہ آپ کے سر پر بندھی ہوئی پٹی کے اوپر سے گرمی محسوس کی جارہی تھی ، صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ جو رومال نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمبارک پر ڈال رکھا تھا میں نے اسے ہاتھ لگایا تو آنچ آرہی تھی، بدن ایسا گرم تھا کہ میرا ہاتھ اس گرمی کو برداشت نہ کرسکا۔ یہ حضرت میمونہ کی باری کا دن تھا ، پانچ دن تک آپ اس حالت میں بھی از راہ عدل وکرم باری باری ایک ایک بیوی کے حجرے میں تشریف لے جاتے رہے ، آپ روزانہ یہ پوچھتے کہ ’’ اَیْنَ اَنَا غَدًا ؟ ‘‘ میں کل کہاں رہوں گا ؟ ازواج مطہرات نے اجازت دے دی کہ آپ جہاں چاہیں رہیں ، دوسرے روز حضرت عائشہ کے یہاں قیام کی باری تھی ، ضعف اس قدر ہوگیا تھا کہ چلا نہیں جاتا تھا ، حضرت علی اور حضرت فضل بن عباس کا سہارا لے کر آپ درمیان میں چل رہے تھے ، سرپر پٹی بندھی تھی اور پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے ، اس
Flag Counter