Maktaba Wahhabi

232 - 303
مجبوری میں سب جائز؟ کسی چیزکے حلال یا حرام ہونے کا دارومدار شرعی نصوص پر ہوتا ہے ، شریعت مطہرہ نے جس چیز کو حلال ٹھہرایا وہی حلال ہے اور جس چیز کو حرام قرار دیا وہ حرام ہے ، حلت و حرمت کے سلسلے میں وارد شرعی نصوص سے علمائے کرام نے ایک قاعدہ یہ مستنبط کیا ہے کہ:’’الضَرورَات تُبِیحُ المَحظورات‘‘ یعنی اضطراری حالتیں حرام چیزوں کو مباح قراردیتی ہیں۔ بعض اسلامی معاشروں میں اس فقہی قاعدے کی آڑ میں بہت سارے حرام کاموں کو حلال کا درجہ دے دیا جا تا ہے ، خاص طور سے رشوت اور سودی لین دین کو سند جواز فراہم کر نے کے لیے بعض حضرات اس قاعدے کا سہارا لیتے ہیں۔حالانکہ اس فقہی قاعدے کے بھی اصول و ضوابط اور شروط و قیود ہیں جن کا لحاظ ضروری ہے ، مشہور کویتی مجلہ الفرقان نے اس تعلق سے ایک بار کویت کے علماء سے اس سلسلے میں استفسار کیا تھا اور اس قاعدے کی وضاحت کر نے اور اس کی حدود و قیود پر روشنی ڈالنے کی درخواست کی تھی۔ڈاکٹر عجیل نشمی، ڈاکٹر سلیمان معرفی اور شیخ محمد الحمود - حفظہم اللہ - نے جو کچھ اس سلسلے میں تحریر فرمایا وہ ۲۴؍نومبر ۲۰۰۳؁ء کے الفرقان کے شمارے میں شائع ہو چکا ہے، ان ہی جلیل القدر علماء کی تحریروں کی ترجمانی معمولی تصرف- تقدیم وتاخیر- کے ساتھ کی جا رہی ہے: تعریف شیخ محمد الحمود نے لفظ ’’ ضرورۃ‘‘ کی تعریف کر تے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ ’’اضطرار‘‘ سے مأخوذ ہے اور اضطرار سخت ضرورت کو کہتے ہیں ، فقہاء کرام نے ’’ضرورت‘‘ کی تعریف یوں کی ہے کہ انسان اس حد کو پہنچ جائے کہ اگر وہ حرام اور ممنوع چیز کو تناول نہیں کر تا ہے تو جان سے ہاتھ دھو سکتا ہے یا موت کے قریب پہنچ سکتا ہے ، جیسے کسی کی اضطراری حالت اس کو مردار
Flag Counter