’’الترغیب والترہیب للمنذري‘‘ اور خصوصاً ’’صحیح الترغیب والترھیب للألباني‘‘ کی جلد اول میں کتاب العلم(ص:31 تا 61)بھی قابلِ مطالعہ ہے،ہم یہاں تفصیل میں جانے کے بجائے انہی اشارات پر اکتفا کرتے ہیں،کیونکہ ان سے اتنا تو واضح طور پر معلوم ہو ہی جاتا ہے کہ علم و طالب علم کا کیا مقام و مرتبہ ہے اور نوافل و تلاوت پر علمی حلقوں میں بیٹھنے کو ترجیح حاصل ہے۔لہٰذا اگر مسجد میں خالص قرآن و حدیث کا درس ہو رہا ہو تو ایسے درس کے حلقوں میں بیٹھنا عام نفلی نمازوں سے بہتر ہے۔فقہ حنفی کی معتبر کتاب ’’درِّ مختار‘‘ میں لکھا ہے:
’’فَاسْتِمَاعُ الْعِظَۃِ أَوْلٰی‘‘[1] ’’اور وعظ و درس کا سننا اولیٰ اور بہتر ہے۔‘‘
حاشیہ ابن عابدین میں بھی مصنف نے درّ مختار والے کی تائید اور مزید تشریح کی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام سیوطی نے اپنی کتاب ’’الأمر بالاتباع والنھي عن الابتداع‘‘ میں لکھا ہے کہ بدعات یا نو ایجاد امور میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی انسان جہالت و لا علمی کے باوجود علمی مجلسوں کو چھوڑ کر نفلی عبادت میں مصروف رہے۔یہ ایک ایسی غلطی ہے جس سے انسان بہت ہی مخالفِ شریعت آفتوں کا شکار ہو جاتا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے سورت طٰہٰ میں خود اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی تلقین فرمائی ہے:
﴿وَقُلْ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا﴾[طٰہٰ:114]
’’آپ کہہ دیجیے کہ اے میرے رب! میرا علم زیادہ کر۔‘‘
اس آیت میں علم کی زیادتی کو طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور سورت کہف میں حضرت موسیٰ و خضرi کے واقعہ کے شروع ہی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول منقول ہے:
﴿ھَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰٓی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا﴾[الکھف:66]
’’کیا میں آپ کے ساتھ اس شرط پر رہ سکتا ہوں کہ آپ کو جو کچھ اﷲ نے دیا ہے،اس میں سے مجھے بھی سکھائیں گے؟‘‘
انبیاے کرام علیہم السلام کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اعلیٰ قسم کی تعلیم دی جاتی ہے اور ان کی مدد و نصرت کی جاتی ہے،لیکن اس کے باوجود بھی انھیں حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ مزید علم کی طلب رکھیں،اس کا سبب
|