Maktaba Wahhabi

492 - 699
ہے کہ نمازِ مغرب و عشا اور فجر تین نمازیں بھی اسی وادی میں پڑھتے ہیں۔جس میں اصحاب الفیل پر اﷲ کا عذاب نازل ہوا تھا،جو دوسری لیکن پہلی سے بڑی غلطی ہے۔ ان دو وادیوں یعنی قومِ ثمود کی وادیِ حجر(مدائن صالح علیہ السلام)اور اصحاب الفیل والی وادیِ محسّر کے علاوہ اس سلسلے میں ایک ارضِ بابل کی وہ جگہ بھی ہے،جس کے بارے میں مفسّرین کرام اور مورخینِ اسلام نے لکھا ہے کہ نمرود بن کنعان نے بابل میں ایک ایسی فلک بوس عمارت تعمیر کروائی جس کی اونچائی پانچ ہزار ہاتھ تھی،اﷲ تعالیٰ نے نمرود اور اس کے پیروکاروں کو اس عمارت سمیت نہ صرف زمین بوس کیا،بلکہ زمین ہی میں دھنسا دیا تھا۔اس واقعہ کی تفصیل سورت نحل آیت 26 اور سورت ابراہیم آیت 45 کی تفسیر میں دیکھی جاسکتی ہے،جہاں اﷲتعالیٰ نے پہلے مشرکوں اور متکبروں کا تذکرہ فرمایا ہے اور پھر سورت نحل میں فرمایا ہے: ﴿فَاَتَی اللّٰہُ بُنْیَانَھُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْھِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِھِمْ وَ اَتٰھُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ﴾[النحل:26] ’’اﷲ نے ان کی عمارت کی بنیادوں سے خبر لی اور دھڑ دھڑا کر اوپر سے ان پر چھت آگری اور جدھر سے انھیں خیال بھی نہ تھا،ادھر سے عذاب آپہنچا۔‘‘ زمین میں دھنسائے جانے والوں میں سے ہی قارون بھی تھا،جس کا واقعہ اور تذکرئہ دولت قرآنِ کریم،سورت قصص میں مذکور ہے،جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿خَسَفْنَا بِہٖ وَ بِدَارِہِ الْاَرْضَ﴾[القصص:76 تا 88] ’’ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا۔‘‘[1] ایسے ہی سورئہ عنکبوت کی آیت 38-39 اور 40 کی تفسیر بھی دیکھیں،وہاں بھی اﷲ تعالیٰ نے قومِ عاد و ثمود اور قارون و فرعون و ہامان کا ذکر کر کے فرمایا کہ ان میں سے بعض پر ہم نے پتھراؤ کیا اور بعض پر چنگاڑ کا عذاب بھیجا اور بعض کو زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے غرق کر دیا۔یہ تو معذَّبین میں سے بعض کا اشاراتی تذکرہ ہوا،جب کہ مقاماتِ عذاب پر نماز کی کراہت جو ہمارا اصل موضوع ہے،اس سلسلے میں صحیح بخاری میں تعلیقاً اور مصنف ابن ابی شیبہ میں موصولاً مروی
Flag Counter