Maktaba Wahhabi

491 - 699
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وادیِ حجر(مدائن صالح علیہ السلام)میں رکے ہی نہیں،جیسا کہ کتاب المغازی والی حدیث کے الفاظ سے پتا چلتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں نہ رکنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز بھی نہیں پڑھی۔ جس طرح اس واقعہ میں ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وادیِ حجر(مدائن صالح علیہ السلام)سے سر منہ باندھے جلدی جلدی آگے نکل گئے،بالکل اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر وادیِ محسّر سے گزرتے وقت کیا تھا،کیونکہ محسّر وہ وادی ہے جہاں خانہ کعبہ کو گرانے کی نیتِ بد سے آنے والے ابرہہ کافر اور اس کے لشکر پر اﷲ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تھا اور ابابیلوں کی کنکریوں نے پورے لشکر کو کو کھائے ہوئے بھوسے کی مانند ریزہ ریزہ کر دیا تھا،جس کی تفصیل تیسویں پارے کی سورت فیل کی تفسیر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ سے منیٰ کی طرف چلے اور وادیِ محسّر سے گزرنے لگے تو وہاں سے جلدی سے نکل گئے،جیسا کہ صحیح مسلم،سنن ابو داود،ابن ماجہ،دارمی،بیہقی،منتقیٰ ابن جارود اور مستخرج ابو نعیم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں: {حَتّٰی أَتَیٰ بَطْنَ مُحَسَّرٍ فَحَرَّکَ قَلِیْلًا}[1] ’’یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وادیِ محسّر میں آئے تو وہاں سے تھوڑا تیزی کے ساتھ آگے(منیٰ کو)نکل گئے۔‘‘ یاد رہے کہ یہ وادیِ محسّر چونکہ مشاعرِ حج کے مابین واقع ہے،جہاں سالانہ لوگوں کی آمد ورفت ہوتی ہے،لہٰذا سعودی حکومت نے اس وادی تک جانے والے راستوں کے آغاز و انتہا پر باقاعدہ شناختی بورڈ یا سنگِ میل نصب کر رکھے ہیں،تاکہ حجاج یا عام زائرین بہ آسانی شناخت کر سکیں کہ یہاں سے وادیِ محسّر شروع ہو رہی ہے،ایامِ حج میں ہم ہر سال اپنے ریڈیو پروگرام ’’سوئے حرم‘‘ میں اس بات کی یاد دہانی بھی کرواتے رہے ہیں،کیونکہ بعض لوگ اس وادی میں رات کو ڈیرہ ڈال دیتے ہیں،حالانکہ وہاں سے تو جلدی جلدی نکل جا نے کا حکم ہے،جیسا کہ صحیح مسلم اور دیگر کتبِ حدیث والی اس حدیث سے سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا پتا چل رہا ہے جو ابھی ہم نے ذکر کی ہے۔وہاں رات گزارنے والے ظاہر
Flag Counter