قُلْتُ:فَإِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُمْ جَمَاعَۃٌ وَلَا إِمَامٌ؟ قَالَ:فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّہَا،وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَۃٍ حَتَّی یُدْرِکَکَ الْمَوْتُ،وَأَنْتَ عَلَی ذَلِکَ‘‘[1]
’’لوگ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر و بھلائی کے امور کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے اور میں شر و برائی کے امور کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کرتا تھا کہ میں کہیں ان میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔میں نے عرض کی:اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم جہالت اور شر کی زندگی گزار رہے تھے کہ اﷲ تعالیٰ خیر(اسلام)لایا تو کیا اس خیر کے بعد شر بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں۔میں نے پوچھا:کیا اس شر کے بعد پھر خیر کا عہد آئے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں اور اس میں ’’دخن‘‘ ہوگا،میں نے عرض کی:وہ ’’دخن‘‘ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایک قوم میری تعلیمات کو چھوڑ کر اپنی مرضی کے طریقے پر چل کر بھی اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھے گی،تم پہچانو گے اور انکار کرو گے۔میں نے عرض کی:اس خیر کے بعد پھر شر بھی ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں،لوگ جہنم کے دروازوں پر کھڑے اس کی طرف بلا رہے ہوں گے،جس نے ان کی بات مان لی وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے،میں نے عرض کی:اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں ان لوگوں کے اوصاف بتائیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ ہمیں میں سے ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے۔میں نے عرض کی:اگر میں اس دور کو پا لوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ رہو۔میں نے عرض کی:اگر ان کی کوئی جماعت ہو نہ کوئی امام ہوا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ان تمام فرقوں سے الگ تھلگ رہو اور اگر تم درخت کی جڑ(اسلام کی بنیاد کتاب و سنت)کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور اسی حالت پر تمھیں موت آجائے تو یہی تمھارے لیے بہتر ہے۔‘‘
میں(ابن باز رحمہ اللہ)ہر مسلمان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے قول و فعل میں تقویٰ اختیار کرے،فتنوں اور ان کی طرف بلانے والوں سے ہوشیار رہے،ہر وہ امر جو اﷲ کی ناراضی کا موجب ہو یا اس کا ذریعہ بننے والا ہو،اس سے دور رہے اور ہر ممکن کوشش کرے کہ وہ ان
|