Maktaba Wahhabi

34 - 128
کسی شاذ اصول یا تعصب کی وجہ سے نہیں ہونا چاہئے، جس طرح بعض لوگوں نے باور کروایا ہے حالانکہ وہ بذات خود شاذ اصولوں کو آڑ بنا رہے ہوتے ہیں۔ (س) تحقیق کرتے وقت جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے، بلکہ بہت زیادہ محنت کرنی چاہئے خواہ ایک حدیث کی تحقیق میں ایک سال لگ جائے، کیونکہ یہ معاملہ شریعت کا ہے۔ حدیث کو صحیح کہا تو دین کا حصہ شمار ہوگی اور اگر ضعیف کہا تو دین تصور نہیں کی جائے گی۔ وہ علما ء جو تحقیق میں عجلت سے کام لیتے ہیں، منٹوں سیکنڈوں میں تحقیق کرتے ہیں اور پھر اگلے ہی گھنٹے اس سے رجوع کرلیتے ہیں، پھر چند دن بعد کوئی تحقیق سامنے آئی تو اور موقف بنا لیا، گویا اس طرح ایک حدیث کے بارے میں کئی مرتبہ اپنی تحقیق بدلتے نظرآتے ہیں، اس کی وجہ صرف جلد بازی ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ ایک حدیث کی تحقیق کرتے وقت تمام طرق جمع کیے جائیں، تمام محدثین کا کلام اس حدیث پر دیکھا جائے، اب تو انٹر نیٹ اور مکتبہ شاملہ وغیرہ بھی عام ہیں، ان سے بھی مدد لی جائے اور اصل سے مراجعت کر لی جائے، پھر موجودہ محققین اہل علم سے مشورہ کیا جائے،پھر استخارہ کیا جائے،جب پورا یقین ہو جائے تب جا کر اس تحقیق کو حتمی شکل دی جائے۔ پھر پڑھنے والا کہے گا کہ واقعتا تحقیق کا حق ادا کیا ہے، ورنہ تحقیق مذاق بن جائے گی۔اس موقع پر ایک مثال دینا فائدے سے خالی نہیں، مشہور حدیث’’ طلب العلم فریضۃ‘‘کی تحقیق کرتے وقت محدث البانی رحمہ اللہ نے لکھا کہ میں نے اب تک اس کی آٹھ سندیں جمع کی ہیں اورع باقی ابھی جمع کررہاہوں۔[1] شیخ کے شاگرد محدث ابو اسحاق الحوینی حفظہ اللہ نے اسی حدیث کی تخریج بائیس صفحات پر مکمل کی اور بیس سے زیادہ سندیں جمع کیں،پھر ہر ہر سند پر بحث کی اور آخر میں خلاصہ نکالا کہ یہ حدیث حسن درجے کی ہے۔والحمدللہ، گویا انہوں نے تحقیق کا حق ادا کردیا۔ایک طرف یہ تحقیق ہے اور دوسری طرف ایک یا دو سطروں میں تحقیق، اس سے منصف مزاج شخص فنِ تخریج میں
Flag Counter