Maktaba Wahhabi

70 - 128
معین مراد لیتے تھے۔[1] اور یہ بھی کہا کہ جس حدیث کو ابن معین نہیں جانتا وہ حدیث نہیں ہے ایک روایت میں ہے وہ روایت ثابت نہیں ہے۔(ایضا )صالح الجزرہ نے کہا:ابن معین رجال اور کنیتوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔[2] تصانیف: امام ابن معین کے دل میں کتابتِ حدیث کی محبت ڈال دی گئی، آپ حدیث کے طرق کو جمع کرنا اور اس کی علل پر اطلاع پانا پسند کرتے تھے۔آپ کا مشغلہ رجال پر نقد تھا چونکہ ان کے پاس لکھنے کا وقت بھی نہیں ہوتا تھا اسی لیے آپ کے کئی ایک شاگردوں نے رواۃ اور عللِ حدیث کے بارے میں سؤالات کیے جو کتابی شکل میں مطبوع ہیں۔آگے ان کتب کے منہج پر بحث آرہی ہے۔ وفات: آپ مدینہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ذوالقعدہ ۲۳۳ھ میں فوت ہوئے۔آپ کی میت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چارپائی پر رکھا گیا۔[3] امام ابوحاتم الرازی فرماتے ہیں: ابن معین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں فوت ہوئے اور انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چارپائی پر رکھا گیا اور بہت سارے لوگ ان کے جنازے میں شریک ہوئے اور ایک آدمی کہہ رہا تھا:ھذہ جنازۃ یحیی بن معین الذاب عن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم الکذب والناس یبکون۔‘‘لوگو !یہ یحیی بن معین کا جنازہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بولے جانے والے جھوٹ کا دفاع کرنے والا تھا۔اور لوگ رو رہے تھے۔[4] تاریخ بغداد کے مذکورہ صفحے کو غورسے پڑھا جائے۔سبحان اللہ اس میں ایمان تازہ کرنے والی باتیں ذکر ہیں۔ امام ابن معین رحمہ اللہ کی کتبِ جرح و تعدیل کا منہج امام ابن معین کا مشغلہ رجال پر نقد تھا چونکہ ان کے پاس لکھنے کا وقت بھی نہیں ہوتا تھا اسی
Flag Counter