Maktaba Wahhabi

41 - 128
یہ بھی آدھا علم ہے، چہ جائیکہ انسان اپنی لاعلم شخصیت کے تعارف کے اشتہار نصب کرنا شروع کردے۔۔۔ اور اگر مکابرت پر مبنی یہ سب کچھ ائمہ اسلاف کے بالمقابل ہو تو یہ رویہ میری مذکورہ باتوں سے بھی کئی گنا زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ شیخ محمد صارم حفظہ اللہ فرماتے ہیں۔: ابن حجر رحمہ اللہ کا خاصہ یہ ہے کہ انہوں نے متقدمین کی کتب کی تنقیح کر دی ہے اور مصطلاحات کو ان کے مقام پر ایسے رکھ دیا ہے کہ بعض اصطلاحات جن کی تعریفات میں ٹکراو تھا وہ ختم ہو گیا۔ مثال کے لئے (النکت)میں ارسال کی بحث دیکھی جا سکتی ہے۔ کیا حسن لغیرہ حدیث متقدمین سے ثابت نہیں ؟ حسن لغیرہ امام ترمذی سے ثابت ہے۔۔بلکہ وہو اول من اشھرہ۔۔۔قالہ ابن حجر۔۔ انہوں نے اسکو شہرت دی۔۔یہ نہیں کہ اسکے موجد ہی وہی ہیں۔۔۔گویا یہ اصطلاح اوروں سے بھی ثابت ہے۔مگر چونکہ امام ترمذی نے کثرت کے ساتھ اپنی کتاب میں اسکا ذکر کیا ہے۔۔لہذا اسی لیے انکو اسکی شہرت کرنے والا کہاجاتا ہے۔ کہنے کا مقصد۔۔کیاامام ترمذی ائمہ متقدمین میں سے نہیں۔ ان صاحب نے اپنی تازہ کتاب میں انکارکردیا ہے کہ امام ترمذی حسن لغیرہ کے قائل ہیں۔۔۔اناللّٰه واناواناالیہ راجعون۔۔۔ آپ اصول حدیث کی کتب اٹھاکر دیکھیں تقریبا ہر مصنف نے اس اصطلاح امام ترمذی کی طرف منسوب کیا ہے۔۔تو کیا انہوں نے وہ محض ظن، تخمین اور تقلیدا ایسا کہا ہے۔ یہ سارے جواب میری زیر ترتیب کتاب میں آرہے ہیں۔۔ان شاء اللہ العزیز۔ آخری اور اہم بات۔۔۔اور قابل غور بھی۔۔محدثین کرام نے تین قسم کی روایات جمع کی ہیں۔۔ صحیح قلیل الضعف روایات شدید الضعف روایات
Flag Counter