’’یہ روایت مجہولین کی بیان کردہ ہے، انقطاع بھی ہے۔‘‘ اس روایت کی سند بھی موجود نہیں ہے، بعضے نادان دوست مجاہیل کی روایت کو ضعیف کہنے سے گریزاں ہوتے ہیں ، لیکن مجاہیل کا مسئلہ تو تب پیش آئے، جب سند موجود ہو، سند ہی اگر موجود نہیں ، تو مجہول کی روایت کے صحیح یا ضعیف ہونے کی بحث سے حاصل؟ امام شافعی رحمہ اللہ کا فرمان البتہ اس سلسلہ میں سن لیجئے : لَا نَقْبَلُ خَبَرَ مَنْ جَہِلْنَاہُ، وَکَذٰلِکَ لَا نَقْبَلُ خَبَرَ مَنْ لَّمْ نَعْرِفْہُ بِالصِّدْقِ وَعَمَلِ الْخَیْرِ ۔ ’’ہم محدثین مجہول راوی کی حدیث قبول نہیں کرتے، نہ ہی اس شخص کی روایت قبول کرتے ہیں ، جس کی سچائی اور نیکی ہم نہیں جانتے۔‘‘ (إختلاف الحدیث : 13، معرفۃ السّنن والآثار للبیہقي : 12/1) دین متصل روایات کا نام ہے۔ صحیح حدیث کی شرطوں میں بنیادی شرط اتصال سند ہے، یہاں تو سرے سے سندیں ہی موجود نہیں ، اتصال کہاں سے ہوگا! ان روایات کے بارے میں اہل علم کی آرا : ان روایات کے متعلق علما کی آرا سن لیں : حافظ سخاوی رحمہ اللہ (902ھ) لکھتے ہیں : لَا یَصِحُّ فِي الْمَرْفُوْعِ مِنْ کُلِّ ہٰذَا شَيْئٌ ۔ ’’اس معنی کی مرفوع احادیث میں سے کوئی بھی ثابت نہیں ۔‘‘ (المقاصد الحسنۃ، ص 385) |