سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا، تو فرمایا : لَوْلَا أَنِّي رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُکَ، مَا قَبَّلْتُکَ ۔ ’’اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھتا، تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘‘ (صحیح البخاري : 1597، صحیح مسلم : 1270) معلوم ہواکہ جس چیز کا بوسہ شریعت سے ثابت نہ ہو، اسے بوسہ دینا ناجائز اور غیر مشروع ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قَالَ شَیْخُنَا فِي شَرْحِ التِرْمِذِيِّ : فِیہِ کَرَاہِیَۃُ تَقْبِیلِ مَا لَمْ یَرَہُ الشَّرْعُ بِتَقْبِیلِہٖ ۔ ’’ہمارے شیخ(حافظ عراقی رحمہ اللہ )جامع ترمذی کی شرح میں فرماتے ہیں : اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جس چیز کو بوسہ دینے کی تعلیم شریعت نے نہ دی ہو، اسے بوسہ دینا مکروہ ہے۔‘‘ (فتح الباري : 3/463) استدلا ل کے سقم کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو : ’’تبرکات کا چومنا جائز ہے۔ قرآنِ کریم فرماتا ہے : ﴿وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ﴾ یعنی اے بنی اسرائیل! تم بیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو اور کہو : ہمارے گناہ معاف ہوں ۔ اس آیت سے پتہ لگا کہ بیت المقدس، جو انبیائے کرام کی آرامگاہ ہے، اس کی تعظیم اس طرح کرائی گئی کہ وہاں بنی اسرائیل کو سجدہ کرتے ہوئے جانے |