Maktaba Wahhabi

217 - 447
ابن ماجہ، مسندِ احمد اور بیہقی میں حضرت مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (( رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم إِذَا تَوَضَّأ یَدْلُکُ أَصَابِعِ رِجْلَیْہِ بِخِنْصَرِہٖ )) [1] ’’میں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کر رہے تھے تو پاؤں کی انگلیوں کو اپنے ہاتھ کی چھنگلی (سب سے چھوٹی انگلی) سے مَل رہے تھے۔‘‘ ایسے ہی سنن دار قطنی میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے، طبرانی اوسط میں حضرت ربیع بنت معوّذ رضی اللہ عنہا سے، طبرانی کبیر میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے، سنن دار قطنی ہی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، مسندِ احمد میں حضرت عبد اللہ بن زائد بن عاصم رضی اللہ عنہ سے اور ایسے ہی مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی خلال کے بارے میں احادیث موجود ہیں، لیکن ان میں سے تو ہر روایت ہی متکلم فیہ ہے، مگر وہ تین احادیث جو ہم نے ذکر کی ہیں، صحیح و حسن درجے کی ہیں۔ ان کے ساتھ یہ متکلم فیہ احادیث بھی تقویت حاصل کر جاتی ہیں اور ان سب کا مجموعی مفاد خلال کی مشروعیت کے لیے ایک مضبوط دلیل بن جاتاہے۔[2] امام ابن قدامہ نے اپنی کتاب ’’المغني‘‘ میں لکھا ہے کہ خلال کرتے وقت دائیں پاؤں کی چھنگلی سے شروع کریں اور انگوٹھے تک پہنچیں اور بائیں پاؤں کے انگوٹھے سے شروع کریں اور چھنگلی تک جائیں، اس لیے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام امور میں دایاں پہلو محبوب تھا، جیسا کہ صحاح و سنن کے حوالے سے حدیث بھی گزری ہے، لہٰذا اس طرح خلال کرنے میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب انداز آجائے گا۔[3] دوسری بات یہ کہ پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنے کے لیے جو بھی ہاتھ استعمال کریں، جائز ہے۔ ویسے چونکہ پاؤں دھوئے بھی بائیں ہاتھ سے جاتے ہیں تو ان کی انگلیوں کا خلال بھی بائیں ہاتھ ہی سے بہتر ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ نے بھی بائیں ہاتھ ہی کا ذکر کیا ہے اور یہ بات کسی نص سے تو
Flag Counter