Maktaba Wahhabi

442 - 447
البتہ وضو پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ علامہ ابن رشد نے ’’بدایۃ المجتھد‘‘ میں لکھا ہے کہ اس سلسلے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے شاذ مسلک اختیار کیا ہے اور نماز کے دوران میں ہنسنے والے کے لیے وضو کرنا واجب قرار دیا ہے، ان کی دلیل طبرانی کی ابو العالیہ سے مروی ایک مرسل روایت ہے (یعنی ابو العالیہ والی روایت میں تابعی کسی صحابی کا حوالہ دیے بغیر ہی نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو روایت کرتا ہے، جب کہ) ایسی روایت جمہور کے نزدیک حجت نہیں ہوتی اور جمہور نے دوسرا جواب یہ دیا ہے کہ ہنسنے سے وضو کو واجب قرار دینا اصول کے خلاف ہے، کیوں کہ ایک چیز جو نماز سے باہر ناقضِ وضو نہیں، وہ نماز کے دوران میں ناقض کیسے ہوسکتی ہے؟[1] امام ابن المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بات پر تو اجماع ہے کہ نماز کے باہر ہونے کی صورت میں ہنسنا ناقضِ وضو نہیں ہے، البتہ نماز کے دوران ہو تو اس میں اختلاف ہے۔ جو نماز کے دوران میں وضو کے لیے ہنسنے کو ناقض کہے، وہ ایک تو قیاس جلی کی مخالفت کرتا ہے، جیسا کہ سابق میں جمہور کی طرف سے جواب گزرا ہے کہ یہ اصول کے خلاف ہے۔ دوسرے یہ کہ ان کے لیے انھوں نے وہ روایت دلیل بنائی ہے، جو صحیح نہیں اور یہ بھی نا ممکن ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ خیر القرون کے لوگ تھے، وہ دربارِ الٰہی میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو کر دورانِ نماز ہنسنے لگیں، جیسا کہ اس مرسل روایت میں ہے۔[2] لہٰذا جمہور کا مسلک ہی قوی ہے کہ نماز کے دوران ہنسنے سے نماز تو فاسد ہو جاتی ہے، مگر وضو نہیں ٹوٹتا۔ 4۔میت کو اٹھانا: جن امور سے وضو نہیں ٹوٹتا، ان میں سے چوتھی چیز میت کو اٹھانا ہے۔ علامہ ابن رشد نے ’’بدایۃ المجتہد‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک قوم نے یہ شاذ موقف اختیار کیا ہے کہ جو شخص میت کو اٹھائے وہ وضو کرے، ان کے اس موقف کو شاذ کہنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس سلسلے میں جو اثر یا حدیث ہے، وہ ضعیف ہے، پھر انھوں اس اثر کی نص بھی ذکر کی ہے۔ [3] چنانچہ سنن اربعہ، سنن بیہقی، صحیح ابن حبان،
Flag Counter