Maktaba Wahhabi

326 - 447
تیمم اور اجماعِ امت: قرآن و سنت کی ان نصوص کی طرح تیمم کے جواز و مشروعیت پر ایک دلیل پوری امتِ اسلامیہ کا اجماع بھی ہے، جیسا کہ شروحِ حدیث اور کتبِ فقہ میں مذکور ہے۔ البتہ شروح میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا صرف اس صورت میں اختلاف مذکور کہ جنابت والے کے لیے تیمم جائز نہیں، لیکن سنن ترمذی میں ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا اور اس بات کے قائل ہوگئے تھے کہ پانی نہ ملنے کی صورت میں جنابت والا بھی تیمم کر سکتا ہے۔[1] ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے رجوع کر لینے کا بھی تذکرہ ہے۔[2] اس مسئلے میں اجماعِ امت اور اتفاقِ علما کا ذکر امام ابن قدامہ نے فقہ مقارن کی بہترین کتاب ’’المغني‘‘ (۱/ ۲۳۳) میں بھی کیا ہے۔ حیض اور جنابت میں تیمم: یہ بات تو معروف ہے کہ نماز وغیرہ کے لیے وضو کرنا ہوگا، مگر پانی نہ ملنے یا پانی تو ہو، مگر کسی عذر کی بنا پر پانی استعمال نہ کر سکتا ہو تو وہ شخص تیمم کر کے نماز ادا کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ اگر کسی پر جماع و احتلام یا حیض ونفاس کی وجہ سے غسل واجب ہو اور اس کے پاس پانی نہ ہو یا پانی تو ہو، مگر بیماری یا شدید سردی کی وجہ سے غسل نہ کر سکتا ہو تو ایسے شخص کے لیے بھی جائز ہے کہ وہ تیمم کرکے نماز ادا کر لے، اس کا یہ تیمم غسل اور وضو دونوں سے کفایت کر جا ئے گا۔ امام مالک، شافعی، احمد اور اسحاق رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔[3] اس کا ثبوت کئی احادیث میں موجود ہے، چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں مطولاً اور نسائی شریف میں مختصراً مروی ہے، حضرت عمران رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: (( کُنَّا فِيْ سَفَرٍ مَعَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَصَلّٰی بِالنَّاسِ، فَلَمَّا انْفَتَلَ مِنْ صَلَاتِہٖ، إِذَا
Flag Counter