Maktaba Wahhabi

339 - 447
خلاف ہے، جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار تلاش کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بغیر وضو ہی کے نماز ادا کر لیتے ہیں اور تیمم کا اس وقت تک ابھی حکم ہی نازل نہیں ہوا تھا۔ اس کے باوجود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نہ تو ان کے اس فعل پر ٹوکا اور نہ نماز دہرانے کا حکم فرمایا، جیسا کہ تفصیل گزری ہے۔ اس اعتبار سے امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہی اقرب الی الصواب ہے کہ ایسی حالت میں تیمم سے اداکی گئی نماز کو دہرانا واجب نہیں ہے۔ ایک انتہائی نادر صورت: یہیں ایک اور بات کی طرف بھی اشارہ کرتے چلے جائیں کہ کبھی کبھار ایک انتہائی نادر و ناممکن سی صورتِ حال بھی پیش آسکتی ہے کہ کسی کو نہ تو پانی ملے اور نہ مٹی ہی یا بہ الفاظ دیگر نہ وضو کا ذریعہ موجود ہو اور نہ تیمم ہی کا، جس کی کئی اشکال امام نووی رحمہ اللہ نے ’’المجموع‘‘ (۲/ ۳۰۵ وما بعدھا) میں بیان کی ہیں۔ اگر کبھی کسی کو ایسی صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑے، تو ایسے میں کیا کیا جائے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں جو تبویب کی ہے، وہاں موصوف کے الفاظ ہیں: ’’بَابُ إِذَا لَمْ یَِجِدْ مَائً ا وَلَا تُرَابًا‘‘ ’’اگر کسی کو پانی ملے نہ مٹی تو اس کے لیے حکم کا بیان۔‘‘ جیسا کہ ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں حکم بیان نہیں کیا، بلکہ اسے کھلا ہی چھوڑ دیا ہے۔ جہاں کہیں اس قسم کی تبویب ہوتی ہے، وہ اس بات کا پتا دیتی ہے کہ اُن کے نزدیک اس کے حکم میں قوی قسم کا اختلاف ہوتا ہے اور بحث و نظر کی گنجایش بھی پاتے ہیں تو باب قائم کر دیتے ہیں، مگر باب میں حکم بتانے کے بجائے مختلف آرا کا دروازہ کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔ البتہ اپنی رائے کا اظہار اس باب کے تحت آنے والی حدیث کی شکل میں کر جاتے ہیں، چنانچہ مذکورہ صورت میں حکم یہ ہے کہ پانی اور مٹی چاہے دو نوں چیزیں ہی کہیں دستیاب نہ ہوں نماز پھر بھی پڑھی جائے گی، جو اس نادر حالت میں بلا تیمم و بلا وضو ہی ہوگی اور اس کی دلیل بھی صحیحین، سنن ابی داود نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد والی وہی حدیث ہے، جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار تلاش کرنے کے لیے جانے والے لوگ اسی طرح نماز ادا کر لیتے ہیں، چنانچہ اس حدیث میں ہے:
Flag Counter