Maktaba Wahhabi

449 - 447
مروی ہے۔ ان دونوں کے ان اقوال یا آثار میں قے اور نکسیر کو ناقضِ وضو کہا گیا ہے۔ موطا امام مالک میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے کہ وہ نکسیر سے وضو کیا کرتے تھے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ان کا ایک قول بھی نقل کیا ہے۔[1] اسی طرح علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے ’’المحلّیٰ‘‘ میں حضرت علی اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کے علاوہ متعدد تابعین رحمہم اللہ کے اسماے گرامی بھی ذکر کیے ہیں اور لکھا ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ لوگ نکسیر اور ہر بہنے والے خون سے نقضِ وضو کے قائل تھے تو ہم کہیں گے کہ ٹھیک ہے یہ قائل ہیں تو ہوتے رہیں، حجت صرف ارشادِ نبوی ہے نہ کہ اقوالِ صحابہ و تابعین، پھر اسی پر بس نہیں، بلکہ خود انہی صحابہ و تابعین سے ایسے آثار بھی ملتے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نکسیر پھوٹنے اور خون نکلنے سے وضو ٹوٹنے کے قائل نہیں تھے، پھر آگے انھوں نے وہ آثار بھی ذکر کیے ہیں اور نکسیر کو خونِ استحاضہ پر قیاس کر نے کی تردید کی ہے۔[2] جب صحابہ و تابعین سے دونوں طرح کے اقوال ملتے ہیں اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ناقض ہونا صحیح سند سے ثابت نہیں تو اس کا حکم اپنی اصل حالت پر ہی قائم رہا کہ یہ ناقض نہیں ہے۔ مرسل روایت کی حیثیت: قَے اور نکسیر کے غیر ناقضِ وضو ہونے کے ضمن میں ایک بات بار بار گزری ہے کہ سنن ابن ماجہ اور دارقطنی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث مرفوعاً ضعیف ہے۔ البتہ بعض محدثینِ کرام نے اسے مرسلاً صحیح قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود وہ نقض کی دلیل نہیں بن سکتی، کیوں کہ جمہور محدثینِ کرام کے نزدیک مرسل روایت حجت نہیں ہوتی۔ مرسل روایت کیا ہوتی ہے؟ یہ بات تو آپ کے سامنے رکھی جاچکی ہے کہ ’’شرح نخبۃ الفکر للعسقلاني‘‘ کے مطابق جس روایت کو کوئی چھوٹا یا بڑا تابعی، جس نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا یا ان سے سنا نہیں ہوتا، نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر دے، وہ مرسل کہلاتی ہے۔[3] ایسی روایت کی حیثیت کیا ہوتی ہے؟ اور محدّثین نے اسے ناقابلِ حجت کیوں قرار دیا ہے؟ یہ
Flag Counter