Maktaba Wahhabi

367 - 447
گاڑی) یا بس وغیرہ میں سوار ہو اور نماز کا وقت ہو جائے۔ اندر پانی ہو نہ اسے رکوانا ممکن ہو تو ایسے میں وہ نمازی کیا کرے؟ اس سلسلے میں یہ تو معروف ہے کہ ٹرین یا بس کی دیواریں عموماً لکڑی، لوہے یا پلاسٹک کی ہوتی ہیں، ان پر تیمم کرنا تو درست نہیں ہے، البتہ اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ دورانِ سفر عموماً گا ڑیوں کی دیواروں پر گرد و غبار جم جاتا ہے اور امام ابو حنیفہ، امام محمد رحمہ اللہ اور ان کے دیگر موافقین کے نزدیک گرد و غبار پر بھی تیمم کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ ’’ہدایۃ، باب التیمم‘‘ (۱/ ۳۴) میں لکھا ہے: ’’وَیَجُوْزُ التَّیَمُّمُ عِنْدَ أَبِيْ حَنِیْفَۃَ وَمُحَمَّدٍ بِکُلِّ مَا کَانَ مِنْ جِنْسِ الْأَرْضِ مِنَ التُّرَابِ وَالرَّمْلِ وَالْحَجَرِ وَالْجَصِّ ۔۔۔ وَکَذَا یَجُوْزُ بِالْغُبَارِ‘‘[1] ’’امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک جنسِ ارض کی ہر چیز مٹی، ریت، پتھر اور چونے سے تیمم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح گرد و غبار سے بھی تیمم جائز ہے۔‘‘ فقہ حنفی کی اس معروف کتاب ’’الہدایۃ‘‘ کے ان الفاظ کی روسے اگرٹرین کی دیواروں پر گرد و غبار ہو تو تیمم کیا جا سکتا ہے، ورنہ نہیں۔ ایک تیمم سے متعدد فرضی و نفلی نمازیں اور تلاوت وغیرہ: یہ بات تو صحیح مسلم (مع شرح النووي: ۴/ ۳/ ۱۷۷) اور دیگر کتب میں مروی ایک صحیح حدیث کے حوالے سے ذکر کی جاچکی ہے کہ ایک وضو سے متعدد نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں۔ اگرچہ ہر نماز کے لیے ازسر نو وضو کرنا زیادہ بہتر ہے اور تیمم بھی چونکہ غسل و وضو اور کبھی صرف وضو کے قائم مقام ہوتا ہے، لہٰذا ایک مرتبہ تیمم کر لینے کے بعد جب تک اس کا کوئی ناقض رونما نہ ہو، تب تک اس سے بھی متعدد نمازیں پڑھی جاسکتی اور تلاوت کی جاسکتی ہے۔ ہر نماز کے لیے تیمم کرنا ضروری نہیں۔ نہ یہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عملِ مبارک سے ثابت ہے اور نہ کسی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم فرمایا ہے، بلکہ اس کے برعکس سنن اربعہ، دارقطنی، مستدرکِ حاکم، صحیح ابن حبان اور مسندِ احمد میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی ہے: (( إِنَّ الصَّعِیْدَ الطَّیِّبِ وُضُوْئُ الْمُسْلِمِ وَإِنْ لَّمْ یَجِدِ الْمَآئَ عَشْرَ سِنِیْنَ )) [2]
Flag Counter