Maktaba Wahhabi

158 - 447
مسنون اور مستحب غسل: غسلِ واجب کی مذکورہ چار اقسام (جنابت، حیض، نفاس اور جماع سے غسل) کے علاوہ بعض اقسامِ غسل مسنون اور مستحب ہیں، مثلاً جمعہ کے دن ہر عاقل و بالغ مسلمان کے لیے غسل کی نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی تاکید فرمائی ہے۔ بعض احادیث میں اسے ضروری اور بعض میںاسے اچھا فعل قرار دیا گیا ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار، شرح منتقیٰ الأخبار‘‘ میں ہر قسم کی احادیث نقل کر نے کے بعد غسلِ جمعہ کے مستحب ہونے کا حکم اخذ کیا ہے اور بعض احادیث کی روسے عیدین کے غسل کے بھی مستحب ہونے کا پتا چلتا ہے۔ اسی طرح میت کو غسل دینے کے بعد، مشرک کو دفن کر نے کے بعد، غشی یا بے ہو شی کے بعد، احرام باندھتے وقت، دخولِ مکہ سے قبل اور وقوفِ عرفہ سے پہلے غسل کرنا بھی احادیث سے ثابت ہے، مگر یہ سب اَقسام فرض یا واجب نہیں، بلکہ مسنون، مستحب اور کارِ ثواب ہونے کا درجہ رکھتی ہیں۔ [1] البتہ ان تمام اقسام فرض و واجب اور مستحب و مسنون کے لیے غسل کا طریقہ تقریباً ایک جیسا ہی ہے، صرف اتنا فرق ہے کہ غسلِ جنابت کے لیے عورت کا اپنے سر کی چٹیا کھو لنا ضروری نہیں، جبکہ حیض و نفاس کے لیے غسل کرتے وقت بالوں کا کھو لنا اور خوب مل کر دھونا ضروری ہے۔ غسل کا مسنون طریقہ: اب رہا غسل کا مسنون طریقہ تو اس کی عموماً دو شکلیں پائی جا تی ہیں۔ ایک غسلِ عادت اور دوسرا غسل عبادت ہے۔ غسلِ عادت تویہ ہے کہ کوئی شخص محض اپنے جسم کا میل کچیل اور پسینا زائل کر نے، صفائی ستھرائی کی خاطر یا گرمی کی شدت کم کرنے اور حصولِ برودت کی غرض سے نہائے اور غسل کے مسنون طریقہ سے قطع نظر اپنی ہی مرضی سے بدن پر پانی بہائے اور صابن، شیمپو سے غسل کر لے۔ اسے آپ ’’غسل عادت‘‘ کہہ سکتے ہیں، کیوں کہ اس سے صفائی ستھرائی اور ٹھنڈک تو حاصل ہو جائے گی، مگر وہ
Flag Counter