Maktaba Wahhabi

66 - 447
’’میں گوشت کی ہڈی چُوستی، پھر اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم لے لیتے اور میرے مُنہ رکھنے والی جگہ پر مُنہ رکھ کر ہی اُسے چُوستے تھے اور میں حیض کی حالت میں ہوتی تھی۔‘‘ سُبحان اللہ! یہ تھی مثالی معاشرت، بلکہ حسنِ معاشرت!! ایک جاہلانہ عادت: اس حدیث سے فطری عذر میں مبتلا عورت کے جُھوٹے پانی کے پاک ہونے کا حکم واضح ہوگیا۔ یہیں پر ہم آپ کی توجہ ایک اور بات کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں، جس سے بہت سے لوگ اور خصوصاً اَن پڑھ اور کم پڑھا لکھا طبقہ دوچار ہے اور وہ یہ کہ کچھ لوگ بیوی کے جُھوٹے پانی کو پینے یا کسی جُھوٹی چیز کو کھانے سے کچھ اس طرح کا پرہیز کرتے اور دُوسروںکو پرہیز کرنے کا مشورہ دیتے ہیں کہ جیسے یہ بیوی نہ ہو، کوئی نجس چیز یا ہندوانہ ذہن کے مطابق اچھُوت قوم کی کوئی فرد ہو۔ یہ صرف ایامِ حیض کے دَوران ہی میں نہیں، بلکہ عام حالات میں بھی ہوتا ہے اور اس کے دلائل مہیّا کرنے کے لیے عقلی گھوڑے دوڑاتے ہیں اور کہتے ہیں: ’’اس طرح آدمی زن مرید ہوجاتا ہے اور عورت کا جُھوٹا میٹھا کھانے سے اس میں یہ اور وہ عیب آجاتا ہے۔ نہ معلوم کیا سے کیا آفت ٹوٹ پڑتی ہے۔‘‘ مذکورہ واقعہ آپ کے سامنے ہے۔ ایک زوجہ محترمہ جو حالتِ حیض میں ہیں۔ ان کا جُھوٹا پانی اور گوشت ہے۔ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ اسی برتن میں پیتے ہیں، بلکہ عین اس جگہ مُنہ رکھ کر پیتے ہیں، جہاں زوجہ محترمہ نے منہ رکھ کر پیا تھا اور گوشت کی ہڈی بھی اسی جگہ سے چُوستے ہیں، جہاں سے زوجہ محترمہ نے چوسی تھی۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ازواجِ مطہرات سے مشفقانہ سلوک اور ان سے اظہارِ محبت و راَفت تھا، جو امت کے لیے چراغِ راہ اور سنت ہے، مگر آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کا دعوے دار اپنے بھائیوں اور دوست و احباب کو عورت کا جُھوٹا میٹھا کھانے سے ’’کُلّی پرہیز‘‘ کا مشورہ دیتے ہوئے نظر آتا ہے۔ ایسے لوگوں میں در اصل عہدِ جاہلیت کی ذہنیت کا پَرتَو اور ان کے خیالات میں وہی جاہلانہ نظریات سمائے ہُوئے ہیں۔
Flag Counter