گیارہ رکعت کے سنت نبویہ ہونے سے ہرگز انکار نہیں کیا ہے بلکہ اس سنت کو مع شے زائد تسلیم کیا ہے اور اس سنت کو مانتے ہوئے اس پر اضافہ کی بنیاد یہ تھی کہ تراویح نفلی نماز ہے۔اس لئے ان کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس فعلی و تقریری سنت کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اس پر اضافہ معیوب اور نا پسندیدہ ہے،بلکہ اس کا مطلب ان کے نزدیک یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے لحاظ سے تو کم از کم مع وتر گیارہ ہی رکعت ہونی چاہیئے لیکن اگر کوئی اضافہ کی طاقت پاتا ہو اور کثرت سجود کا ثواب حاصل کرنا چاہتا ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔کیونکہ رمضان شریف میں قیام لیل کی خصوصی تاکید و ترغیب احادیث میں وارد ہے۔حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ فرماتے ہیں: مترجم گوید رضی اللہ عنہ کہ ہمین ست مذہب شافعہ و حنفیہ بیست رکعت تراویح ست و سہ کعت وتر نزدیک ہر دو فرقہ ہکذا قال المحلی عن البیہقی و سر در تعیین ایں عدد آنست کہ حضرۃ عمرؓ بفراست منورہ خود دریافت کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در قیام سائر ایام ترغیب فرمودہ واز فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا زدہ رکعت ثابت شدہ ودر قیام رمضان آن ترغیب را مؤکد بیان فرمودہ پس انسب دید مترجم کہتا ہے کہ شافعیہ اور حنفیہ دونوں فرقوں کا مذہب یہی ہے کہ تراویح بیس رکعت ہے اور وتر تین رکعت۔ایسا ہی نقل کیا ہے محلی نے بیہقی سے اور اس عدد کی تعیین میں راز یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنی فراست منورہ سے یہ سمجھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(رمضان کے علاوہ بھی)تمام راتوں میں قیام کرنے کی ترغیب دی ہے اور خود آنحضرت ؐ کے فعل سے گیارہ رکعت پڑھنا |