Maktaba Wahhabi

53 - 193
خواب دیکھ کر بڑا پریشان ہوا۔ اُس نے اپنے وزیروں، مشیروں، امرائے سلطنت، حاشیہ نشینوں، کاتبوں، نجومیوں، حکیموں، دانش مندوں کو اکٹھا کیا اور اس خواب کی تعبیر پوچھی، کسی نے کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا بلکہ کہنے لگے: ﴿أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِيلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِينَ ﴾ ’’یہ پریشان خواب ہیں اورہم (ایسے) خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے۔‘‘[1] اَضْغَاث، ضِغْثٌ کی جمع ہے۔ ضغث خس و خاشاک اور گھاس پھونس کے مجموعے کو کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد وہ خواب ہے جو ملے جلے خیالات کا مجموعہ ہو۔خوابِ پریشان مہمل ہوتا ہے۔ اس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ بادشاہ کے حاشیہ برداروں نے کہا:یہ پریشان اوربکھرے ہوئے خواب ہیں، انھیں نظرانداز کردیں۔ اگر سچا خواب بھی ہو تو ہمیں ایسے خوابوں کی تعبیر کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ یہ بات سنتے ہی جیل سے رہائی پانے والے نوجوان کو یاد آگیا کہ جیل میں ایک قیدی ہے جس نے ہمیں خوابوں کی تعبیر بتائی تھی، چنانچہ اس نے سیدنا یوسف علیہ السلام کا ذکر کیا کہ وہ خوابوں کی تعبیر بتاسکتے ہیں۔ ساتھ اس نے یوسف علیہ السلام کے کمالات اور فضائل کا تذکرہ کیا۔ ان کی امانت، صداقت، پاکیزگی اور بلند کردار کی تعریف کی،کہنے لگا: مجھے جیل میں ان سے ملنے کی اجازت دی جائے۔ بادشاہ نے ملاقات کا انتظام کردیا۔ سرکاری طور پر اس کی منظوری ہوگئی۔ قرآن مجید میں اس تفصیل کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس بات کا صرف اتنا بیان ہے﴿ فَأَرْسِلُونِ ﴾’’مجھے یوسف کے پاس بھیجو۔‘‘ جب وہ جیل میں سیدنا یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچا تو ان الفاظ سے مخاطب ہوا: ﴿يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ ﴾ ’’یوسف! اے
Flag Counter