غلو اور اہل بیت کو ایذا ۔ ان[اہل بیت ] کی شان میں غلو کرنا حقیقت میں ان کے لیے بہت بڑی ایذا رسانی ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنے متعلق رافضہ کے غلو پر کسی بھی صورت میں راضی نہیں ہیں ۔ بلکہ وہ اس غلو سے اور ایسی باتیں کہنے والوں سے بری ہیں ۔ جب بھی آئمہ اہل بیت کے پاس ان کے متعلق رافضیوں کے غلو کی شکایت کی گئی توانہوں نے اس سے برأت کا اعلان کیا ۔ جیسا کہ خود رافضیوں کی کتابوں نے بھی اس مسئلہ کو نقل کیا ہے۔ مجلسی نے بحار الأنوار میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہی روایت کیا ہے ، آپ نے فرمایا: اے اللہ ! میں غلو کرنے والوں سے ایسے ہی بری ہوں جیسے حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام عیسائیوں [کے غلو] سے بری ہیں ۔ اے اللہ ! ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رسوا رکھ اوران میں سے کسی ایک کی بھی مدد نہ کرنا ۔[1] اورکشی نے روایت کیاہے: ابو الحسن سے پوچھا گیا : بیشک یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ آپ غیب جانتے ہیں ؟۔ تو انہوں نے کہا : ’’ سبحان اللہ ! اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھ ؛ اللہ کی قسم ! میرے جسم میں کوئی بال ایسا باقی نہیں اور نہ ہی میرے سر میں ؛ مگر وہ کھڑاہوگیا ہے[رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں ]۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم ایسا ہر گز نہیں ہے ، بلکہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی محض ایک روایت ہے۔‘‘[2] |