Maktaba Wahhabi

68 - 586
میں بھی رکھی ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((اِنَّمَا النِّسَاءُ شَقَائِقُ الرِّجَالُ)) [1] ’’عورتیں بھی مردوں ہی کی مانند ہیں۔‘‘ لہٰذا دین کی دعوت و تبلیغ میں عورتیں بھی مردوں کے ساتھ ساتھ ہیں۔ سو ہم اس کی وضاحت بھی کریں گے کہ ایک مومنہ عورت کے لیے دعوت کا دائرہ کار کیا ہے؟ کن شروط اور کن اصول و ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اسے اس مبارک میدان میں اُترنا چاہیے؟ سب سے پہلے دعوت کا معنی و مفہوم سمجھتے ہیں۔ دعوت کے لغوی معانی: 1:… ’’اَلدَّعْوَۃُ‘‘ کا لفظ دَعَا یَدْعُو سے ہے اور اس کا مطلب ہے کسی کو بلانا اور کسی سے کوئی چیز طلب کرنا۔ عربی زبان میں جب دَعَا اِلَیہِ کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے فلاں شخص نے کسی چیز کی طرف دعوت دی، کسی کو بلایااور کسی چیز کی طلب پیش کی۔ عربی زبان میں ایک لفظ بولا جاتا ہے: دَعَا اِلیٰ فُلَانٍ ’’فلاں شخص نے فلاں شخص کو فلاں چیز کی طرف بلایا اور اس کے پاس آنے کی طلب پیش کی۔‘‘ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿ لَا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُورًا وَاحِدًا وَادْعُوا ثُبُورًا كَثِيرًا ﴾ [الفرقان : ۱۴] ’’تم آج ایک ہلاکت کو نہ طلب کرو، بلکہ بہت زیادہ ہلاکتوں کو طلب کرو۔‘‘ اور اس کی مزید وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے، جس میں آپ نے روزِقیامت عرش کا سایہ پانے والے سات خوش نصیب لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک آدمی ان میں سے وہ ہو گا کہ: ((وَرَجُلٌ دَعَتْہُ امْرَأَۃٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّی أَخَافُ
Flag Counter