Maktaba Wahhabi

70 - 132
درخواست کی اور بار بار کی ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ قبائل ِعرب کی لغات مختلف ہیں اور کسی بھی فریق کے لئے اپنی زبان کے لہجے اور اسلوب کو چھوڑکر دوسرے لہجے کو اختیارکرنا خاصا مشکل ہو گا۔تو اللہ تعالی ٰنے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی عرضداشت کو شرف قبولیت بخشا اور اپنی خاص رحمت سے ہر قبیلہ کو اسی کی اپنی لغت اور لہجے میں قرائۃ کی اجازت مرحمت فرما دی۔‘‘ [1] امام ابو شامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’عربوں نے اپنے آپ پر قرآن کریم کے ایک ہی حرف کی پابندی کو لازم نہیں کیا ، کیونکہ قرآن ایک ناخواندہ قوم پر نازل ہوا تھا، جو لکھنے پڑھنے ،اورلکھ کر چیزوں کو یاد کرنے اور دہرانے کی عادی نہیں تھی۔‘‘ پھر انہوں نے ابن الانباری کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’اگر انہیں ایک ہی حرف پر قراء ۃ کا پابند کر دیا جاتا تو یہ ان پر گراں گزرتا اور ممکن تھا کہ یہ پاپندی ان کے لئے قرآن حکیم سے کنارہ کشی اور دوری کا باعث بن جاتی۔‘‘ [2] سات حروف میں قراء ۃ کی رخصت زمانہ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے کس دور میں نازل ہوئی ؟ کیا نزول قرآن کے آغاز کے ساتھ ہی یہ اجازت عطا کر دی گئی تھی یا بعد میں عطا کی گئی ؟جب ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خصوصاً عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلاف ِ قراء ۃ کے وقت کے تناظر میں غور کرتے ہیں تو اس سلسلے میں درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں: ۱:… ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ نے زمانہ نبوت کے آخری دور میں اسلام قبول کیا۔ وہ اپنے والد کے ساتھ آٹھویں صدی ہجری میں فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے۔اور یہ مدنی دور ہے۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان قراء ات ِقرآن میں اختلافات ہجرت ِ نبوی
Flag Counter