Maktaba Wahhabi

53 - 132
حق کے معاملے میں اس حساسیت کی وجہ یہ تھی کہ برائی کا انکاراور حق کا بول بالا اسلام کا مقصد عظیم ہے۔بقول ابو بکر ابن العربی رحمہ اللہ :’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دین اسلام کی بنیاد اور امت مسلمہ کا اصل ورثہ ہے۔‘‘ [1] اورفرمان الٰہی ہے: ﴿کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ﴾ [آل عمران:۱۱۰] ’’(مومنو!) جتنی امتیں (یعنی قومیں) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم اُن سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور بُرے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ دین اسلام میں اصل خیرخواہی ، اللہ عزوجل کی کتاب کے ساتھ ساتھ خیر خواہی ہے۔ جس طرح تمیم الداری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین خیر خواہی کا نام ہے۔ ہم نے پوچھا: کس کے لئے خیر خواہی ؟تو آپ نے فرمایا: اللہ کے لئے ، اس کی کتاب کے لئے، اس کے رسول کے لئے اور مسلمان حکمرانوں کے لئے اور عوام الناس کے لئے۔ [2] امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کتاب اللہ کے ساتھ خیرخواہی کا مطلب ہے ؛ اس کو سیکھنا ، سکھانا ، صحیح حروف اور تلفظ کے ساتھ اس کی تلاوت کرنا ، اس کو مدون کرنا ، اس کے معانی کو سمجھنا ، اس کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ، اس کے احکامات پر عمل کرنا اور اس کو باطل پرستوں کی چیرہ دستیوں سے بچانا۔ ‘‘ [3]
Flag Counter