Maktaba Wahhabi

24 - 132
اہتمام کریں۔میں نے عمرسے کہا: میں وہ کام کیسے کر سکتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اللہ کی قسم !اس کام میں امت کی بہتری ہے۔ پھر عمر بار بار مجھ سے اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے میراسینہ کھول دیا۔ اب میری بھی وہی رائے ہے جو عمر کی ہے۔ ‘‘ [1] عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور ِخلافت میں قرآن اور قراء ت کی تعلیم و تدریس کے لئے متعدد قراء کرام مختلف علاقوں کی طرف روانہ کئے۔ کوفہ میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ بصرہ میں ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کا تقرر کیا۔ جب ملک شام فتح ہوا تو وہاں تین صحابہ کرام ؛ ابو درداء ، معاذ بن جبل اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم کو روانہ کیا۔ آپ نے قراء ات میں ہمیشہ نقل و سماع اور اتباع پرانحصار کیا۔ اور اس سلسلہ میں آپ رضی اللہ عنہ نے کس قدر اہم اور قابل ذکر کردار ادا کیا ، اس کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جا سکتا ہے کہ جب آپ رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو عتا حین پڑھایا ہے تو انہیں خط لکھا: ’’أقرئ الناس بلغۃ قریش فَإن اللّٰه إنما أنزلہ بلغتہم ولم ینزلہ بلغۃ ہذیل ،والسلام۔‘‘ [2] ’’لوگوں کو لغت قریش کے مطابق پڑھاؤ ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو لغت ہذیل پر نہیں بلکہ لغت ِقریش پر نازل کیا ہے۔(والسلام)‘‘ کبار قراء صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کے علم وفضل اور قراء ۃ میں مہارت کی گواہی دی ہے۔ چنانچہ امام اعمش سے روایت ہے کہ زید بن وہب نے فرمایا:دو آدمی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ ان میں سے ایک نے سوال کیا: اے ابو عبد الرحمن! آپ اس آیت کو کس
Flag Counter