Maktaba Wahhabi

123 - 132
وجوہ مراد ہیں۔ [1] ان کی نوعیت بعینہٖایسے تھی جیسے: ھلم تعال اور أقبل، إلیّ، قصدی، قربیاور نحوی۔ یہ سات مختلف الفاظ ہیں ، لیکن باہم مترادف اور ہم معنی ہیں۔بلانے اور طلب کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ قول جمہور فقہاء اور محدثین کی طرف منسوب ہے۔ جن میں سفیان ثوری ، ابن وہب بھی شامل ہیں اور یہی قول ابن جریر طبری نے اختیار کیا ہے۔ امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’بل الأحرف السبعۃ التی أنزل اللّٰه بہا القرآن ، ہن لغات سبع فی حرف واحد ، وکلمۃ واحدۃ بإختلاف الألفاظ واتفاق المعانی ، کقول القائل:ہلم ، وأقبل۔‘‘[2] ’’وہ سات حروف جن پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نازل کیا ، اس سے مراد یہ ہے کہ ایک حرف اور ایک کلمہ کو لغات عرب میں سے سات تک ایسے متبادل الفاظ میں تلاوت کیا جا سکتا ہے جو ہم معنی ہیں۔ جیسے تعال کی جگہ ھلم پڑھ دیا جائے۔‘‘ اور امام ابن جریر طبری کا خیال ہے کہ جمع عثمانی کے وقت ان میں سے صرف ایک حرف باقی رکھا گیا، باقی کی تلاوت کو ختم کر دیا گیا تھا۔اور موجودہ قراء ات کا ان حروف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’والأمۃ خیرت فی قراء تہ وحفظہ بأی تلک الأحرف السبعۃ شاء ت کما أمرت ، ثم دعت الحاجۃ إلی التزام القراء ۃ
Flag Counter