Maktaba Wahhabi

237 - 346
یوں سمجھیے کہ وہ حافظ تھے۔بائبل(عہدنامہ قدیم و جدید)اور مرزا غلام قادیانی کی تصانیف انھیں زبانی یاد تھیں۔ان کی عبارتیں پڑھتے اور اسلام کی حقانیت اس طرح ثابت فرماتے کہ سننے والے ششدر رہ جاتے۔ان میں یہ اعجاز دیکھا کہ جس موضوع پر تقریر فرماتے، اس کا حق ادا کر دیتے۔خطبہ جمعہ کے دوران جو بات سامعین کے ذہن میں آتی کہ اس کی وضاحت ہونی چاہیے، اس پر اس انداز سے گفتگو فرماتے کہ دلائل کے انبار لگا دیتے۔میں نے یہ بھی دیکھا کہ ایک سوال سطح ذہن پر ابھراکہ اس کا کیا جواب ہو سکتا ہے، مولانا نے اسی پر تقریر شروع کر دی اور اس سوال یا اعتراض کا اس طرح مدلل جواب دیا کہ معاملہ صاف ہوگیا۔وہ جو کچھ فرماتے، قرآن و حدیث کی روشنی میں فرماتے اور پورے زور سے اپنی بات سامعین تک پہنچاتے۔ ایک مرتبہ ہفتے کی صبح کو وہ درسِ قرآن دے رہے تھے کہ بریلویت کے بارے میں کوئی مسئلہ زیرِ بحث آیا۔لاؤڈ سپیکر پر یہ باتیں بریلوی مکتبِ فکر کے ایک شخص عزیز احمد نے بھی سنیں۔درس ختم ہوا تو عزیز احمد مسجد میں آئے اور نہایت غصے کی حالت میں مولانا احمد الدین سے پنجابی میں مخاطب ہوئے کہ ’’تم ہمیشہ ہمیں برا بھلا کہتے رہتے ہو، میں آج تمھارا علاج کروں گا۔‘‘ ان کا خیال تھا کہ وہ وزیر آباد کے سب سے بڑے بریلوی عالم مولانا عبدالغفور ہزاروی کو لائیں گے جنھیں وہ قرآن وحدیث کے بہت بڑے عالم اور پیرطریقت کہا کرتے تھے۔وہ مولانا احمد الدین سے گفتگو کریں گے اور ان کے مقابلے میں ان کی زبان بند ہوجائے گی۔اب وہ مولانا عبدالغفور ہزاروی کو لانے کے لیے مسجد سے نکلنے لگے تو مولانا احمد الدین نے ان کو آواز دی۔’’عزیز احمد! جاؤ۔مولوی عبدالغفور سے کہو کہ احمد الدین نظام آباد کی باغ والی مسجد میں بیٹھا ہے، اگر وہ آگیا تو میں لوہار کی اولاد نہیں۔‘‘(مولانا نے تو پنجابی کا ایک اور لفظ
Flag Counter