Maktaba Wahhabi

238 - 346
استعمال کیا تھا، لیکن میں نے اس کا ترجمہ ’’اولاد‘‘ کیاہے۔) انھوں نے کہا: مولوی عبدالغفور کیوں نہیں آئیں گے، میں ان پر بڑا مال خرچ کرتا ہوں۔ مولانا احمد الدین مرحوم نے عزیز احمد صاحب کو پھر آواز دی اور فرمایا کہ پہلے میں یہاں سے آٹھ بجے والی ٹرین سے گکھڑ جایا کرتا ہوں۔آج گیارہ بجے والی ٹرین سے جاؤں گا۔جاؤ مولوی عبدالغفور کو لاؤ۔ وہ صاحب غصے سے بھرے ہوئے تھے۔دوڑتے ہوئے مسجد کے دروازے سے نکل رہے تھے کہ مولانا نے پھر آواز دی اور کہا: عزیز احمد! میرا نام سن کر مولوی عبد الغفور اگر ریلوے کے سگنل تک بھی آجائیں اور کوئی بات بھی نہ کریں تو بھی احمد الدین اپنی شکست مان لے گا۔جاؤ انھیں لے کر آؤ۔ مسجد میں بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔اس واقعہ کا علم ہوا تو اور بھی کتنے ہی لوگ آگئے۔عزیز احمد نہایت غصے کی حالت میں مولانا عبدالغفور کے پاس گئے اور سارا قصہ ان سے بیان کیا اور کہا کہ آئیے مولوی احمد الدین سے بات کیجیے، لیکن مولانا عبدالغفور نے جانے سے صاف انکار کر دیا۔انھوں نے بار بار کہا اور زور دے کر کہا کہ آج مولوی احمد الدین سے فیصلہ کن بات کرلینی چاہیے۔لیکن مولانا عبدالغفور نہیں مانے اور کہا کہ ’’میں اس کہاڑے(کلہاڑے)کے پاس ہرگز نہیں جاؤں گا۔‘‘ مولانا احمد الدین کو اللہ کے فضل سے اپنے علم اور سچائی پر پورا اعتماد تھا اور وہ ہر موضوع پر گفتگو کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔علم کے ساتھ ساتھ اللہ نے ان کو جراَت اور ہمت بھی عطا فرمائی تھی۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب انہی عزیز احمد مرحوم کے بھائی بشیر احمد اور ان کی اولاد پختہ فکر اہلِ حدیث ہیں اور ان کے بھتیجے سعید احمد اسی باغ
Flag Counter