Maktaba Wahhabi

236 - 346
رات کو ٹیلی فون پر آپ نے جو حکم دیا، اس کی تعمیل کے طور پر چند سطور لکھ رہا ہوں۔ مولانا احمد الدین گکھڑوی نظام آباد میں باغ والی مسجد اہلِ حدیث میں خطیب تھے۔ہم لوگ الہ آباد میں مقیم ہیں۔ان دونوں آبادیوں میں جی ٹی روڈ اور ریلوے لائن حدِ فاصل ہے۔اس وقت الہ آباد میں اہلِ حدیث کی کوئی مسجد نہیں تھی۔ہم لوگ نماز کے لیے نظام آباد میں، عام طور پر باغ والی مسجد ہی میں جاتے تھے۔اب بحمدللہ الہ آباد میں اہلِ حدیث کی بارہ مسجدیں ہیں۔ سنا ہے کہ مولانا احمد الدین باغ والی مسجد اہلِ حدیث میں تقسیم ملک سے پہلے بھی خطیب رہے تھے۔ہماری ہوش میں مولانا ممدوح کا یہ دوسرا دورِ خطابت تھا۔مولانا گکھڑو ی جمعۃالمبارک کی صبح کو اس ٹرین سے تشریف لایا کرتے تھے جو تقریباً آٹھ بجے گوجراں والا سے آتی تھی۔وہ جمعہ پڑھاتے، رات یہیں قیام فرماتے، ہفتے کی صبح کو درسِ قرآن حکیم دیتے اور پھر آٹھ بجے کی ٹرین سے اپنے شہر گکھڑ چلے جاتے۔ مولانا مرحوم کا خطبہ جمعہ اور درسِ قرآن حکیم ایسا مربوط اور مضبوط ہوتا کہ سننے والوں کے دلوں میں گھر کر جاتا۔ ان کا موضوع عام طور پر توحیدِ خالص ہوتا۔وہ بدعی فرقوں کا پوسٹ مارٹم اس قدر مضبوط دلائل سے کرتے کہ کوئی تشنگی نہ رہتی۔اگر شیعی مسلک کے بارے میں بات کرتے تو محسوس ہوتا کہ ان کا اصل موضوع یا ہدف تنقید یہی لوگ ہیں۔اگرحجیتِ حدیث پر بات کرتے اور منکرینِ حدیث کے نقطہ نظر کی تردید فرماتے تو یوں لگتا کہ ان کا موضوع دفاعِ حدیث اور ان لوگوں کا رد ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔عیسائیت، مرزائیت اور ہندو مذہب کے تو
Flag Counter