Maktaba Wahhabi

157 - 346
دعوت دی گئی تھی۔مولانا نے پنجابی میں تقریر کرتے ہوئے ان غیر شرعی رسوم کا تذکرہ کیا جو مسلمانوں میں رائج ہوگئی ہیں۔حاضرین میں سے کسی نے بلند آواز سے کہا: ان رسوم کے رائج ہونے میں انگریزی تہذیب کا بھی دخل ہے۔ مولانا نے ہماری روزمرہ کی عام بول چال کی پنجابی زبان میں فرمایا: ’’انگریزا ں نوں مارو گولا،ساڈا اپنا چال چلن ای وگڑگیا اے۔‘‘ پولیس کا جو اہل کار مقررین کی تقریریں لکھنے کے لیے آیا تھا، اس نے مولانا کے وہی الفاظ لکھ لیے کہ ’’انگریزاں نو ں مارو گولا۔‘‘ جنگ کا نازک ترین زمانہ، ملک پر انگریزوں کی حکومت، ادھر انگریزی حکومت کے خلاف کانگرس کی ’’ہندوستان خالی کرو‘‘ تحریک بھی چل رہی تھی، جس میں بعض مقامات پر مظاہرین کی طرف سے تشدد کے واقعات بھی ہوئے۔مولانا کے یہ الفاظ: ’’انگریزاں نوں مارو گولا‘‘ تھانے کے اعلیٰ افسروں تک پہنچے تو انھوں نے روزمرہ کے محاوراتی انداز کے بجائے اسے سنجیدگی کے معنوں میں لیا اور نتیجہ یہ نکالا کہ مولانا احمد الدین نے لوگوں کو تشددپر ابھارا ہے۔چنانچہ پویس والے انھیں تھانے لے گئے۔ یہ انتہائی گھمبیر صورت حال تھی۔جلسے کے منتظمین اور شہر کے بعض سرکردہ حضرات تھانے گئے اور پویس کو مولانا کے سیاقِ کلام میں اس لفظ کے محلِ استعمال سے آگاہ کیا تو معاملہ رفع دفع ہوا۔ مولانا احمد الدین مہمان نواز تھے، ان کا حریف بھی ان کے گھر آتا تو اس کی خدمت کرتے۔بعض دفعہ اسے خود اپنے گھر بلاتے۔ذیل میں اس کی دو مثالیں ملاحظہ ہوں : ان کے بھتیجے جناب مرزا محمد یونس(کھوکھر کی گوجراں والا)بیان کرتے ہیں کہ گکھڑ منڈی کے مغربی محلے میں مرزائیوں کی مسجد تھی۔مرزائی جب اپنے کسی
Flag Counter