Maktaba Wahhabi

158 - 346
مقرر کو تقریر کے لیے بلاتے توبعض اوقات وہ مقرر ہمارے گھربھی آجاتا اور کچھ دیر مولانا احمدالدین سے باتیں کرتا۔مولانا اخلاقاً موسم کے مطابق اسے چائے یا شربت پلاتے۔وہ چلا جاتا تو فرماتے: ’’جن برتنوں میں اسے کھانے پینے کی چیزیں دی گئی ہیں، وہ برتن اندر نہ لے جانا، وہ برتن باہر رکھو اوررحمتے عیسائن کو دے دو جو ہمارے گھر صفائی کے لیے آتی ہے۔‘‘ ہم ان سے اس کی وجہ پوچھتے تو فرماتے: ’’مرزائی کافر ہیں۔جن برتنوں کو یہ ہاتھ لگا دیں یا جن کو یہ استعمال میں لائیں، ہمیں ان برتنوں میں کھانا پینا نہیں چاہیے۔‘‘ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ مولانا سرفراز صفدر سے جو احناف کے دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے تھے، مولانا احمد الدین کے مراسم میں کچھ اتار چڑھاؤ سا آیا۔لیکن جب مولانا سرفراز حج کر کے آئے تو مولانا ممدوح ملاقات کے لیے ان کے گھر گئے۔انھیں حج کی مبارک باد دی۔پھر ان کی دعوت کی اور اپنے گھر بلایا۔ اختلاف کے باوجود مولانا احمد الدین میل ملاقات کے عادی تھے اور مہمان نوازی ان کا قابلِ ذکر وصف تھا۔ حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری کے بارے میں سنا ہے کہ ان کا کوئی ایسا حریف جو امرتسر سے باہر کے کسی مقام سے ان کے ساتھ مناظرے کے لیے آتا تو مناظرے کے بعد وہ اسے اپنے ہاں قیام کی دعوت دیتے۔وہ یقینا ان کے ہاں قیام نہیں کرتا ہو گا، انہی لوگوں کے ہاں ٹھہرتا ہو گا، جنھوں نے اسے مناظرے کے لیے بلایا ہو گا، لیکن مولاناکا اخلاق انھیں مجبور کرتا تھا کہ اسے اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دی جائے۔ ہفت روزہ الاعتصام کے مینیجر جناب محمد سلیم چنیوٹی کا ایک مضمون ’’مناظر اسلام مولانا احمد الدین گکھڑوی‘‘ کے عنوان سے28 مئی 2010ء کے ’’الاعتصام‘‘ میں
Flag Counter