Maktaba Wahhabi

156 - 346
کا جواب دیا جا سکے اور مرزائیت کے موضوع پر تقریریں کی جائیں۔ثناء اللہ بھٹی صاحب بڑے وجیہ اور ملنسار بزرگ تھے۔بے حد مخلص اور کتاب وسنت کے پیروکار! کوٹ کپورہ سے شیر گھری جانے کے لیے تین چار اونٹوں کا انتظام کیا گیا۔فیصلہ ہوا کہ مولانا احمدالدین گکھڑوی، مولانا لال حسین اختر، مولانا عبداللہ معمار، حافظ محمد حسین روپڑی اور مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی وہاں جائیں گے۔سواری کے لیے مولانا احمدالدین کے حصے میں اونٹنی آئی۔وہ اونٹنی پر سوار ہوئے تو کہا: مولوی عطاء اللہ! ’’واذا العشار اُتے لت‘‘ یہ بالکل برمحل الفاظ تھے، جسے سن کر ایک خوش گوار قہقہہ بلند ہوا۔مذکورہ بالا علماے خمسہ(پنج تن پاک)کے علاوہ جو عام لوگ وہاں گئے، میں بھی ان میں شامل تھا۔میری عمر اس وقت دس گیارہ سال کی ہوگی۔لیکن اس چھوٹی عمر میں مجھے اس قسم کے اجتماعات میں حاضر ہونے اور علما کی تقریریں سننے کا بڑا شوق تھا۔ ان حضرات نے وہاں جاتے ہی جلسہ شروع کر دیا۔مرزائی مبلغ اور دیگر مرزائیوں کو دعوت دی گئی، لیکن کوئی سامنے نہیں آیا۔حقیقت یہ ہے کہ مولانا احمدالدین گکھڑوی کا سامنا کرنے سے حریف بہت گھبراتے تھے۔ان کے بعض مخالف تو ان کا نام سنتے ہی اِدھر اُدھر کھسک جاتے تھے۔ چند اور واقعات سنیے! تقسیمِ ملک سے پہلے کی بات ہے۔دوسری عالم گیر جنگ کا زمانہ تھا اور یہ جنگ چھے سال جاری رہی تھی۔ستمبر 1939ء میں شروع اور جولائی 1945ء میں ختم ہوئی تھی۔ ماہ و سال کا تعین کرنا تو مشکل ہے۔اسی جنگ کے دنوں میں رائے ونڈ میں ایک تبلیغی جلسہ منعقد ہوا۔اس میں تقریر کے لیے مولانا احمد الدین گکھڑوی کو بھی
Flag Counter