Maktaba Wahhabi

62 - 108
خود مشاہدہ کیا۔پھر اس قتل کے متعلق(یقینی اور حتمی طور پر)کیا کہا جاسکتا ہے جو دور دراز کے علاقے میں ہوا اور جس پر چار سو سال(امام غزالی کے دور تک)کی مدت بھی گزر چکی ہے۔ علاوہ ازیں اس سانحے پر تعصب وگروہ بندی کی دبیز تہیں چڑھ گئی ہیں اور روایتوں کے انبار لگا دیے گیے ہیں جس کی بنا پر اصل حقیقت کا سراغ لگانا ناممکن ہے، جب واقعہ یہ ہے کہ حقیقت کی نقاب کشائی ممکن ہی نہیں تو ہر مسلمان کے ساتھ حسن ظن رکھنا ضروری ہے۔پھر اہل حق(اہل سنت)کا مذہب تو یہ ہے کہ کسی مسلمان کے متعلق یہ ثابت بھی ہوجائے کہ اس نے کسی مسلمان کو قتل کیا ہے تب بھی وہ قاتل مسلمان،کافر نہیں ہوگا۔اس لیے کہ جرم قتل کفر نہیں ایک معصیت(گناہ)ہے۔پھر یہ بھی واقعہ ہے کہ مسلمان قاتل مرنے سے پہلے پہلے اکثر توبہ کرہی لیتا ہے اور شریعت کا حکم تو ہے کہ اگر کوئی کافر بھی کفر سے توبہ کرلے اس پر بھی لعنت کی اجازت نہیں، پھر یہ لعنت ایسے مسلمان کےلیے کیوں کر جائز ہوگی جس نے مرنے سے پہلے جرم قتل سے توبہ کرلی ہو؟ آخر کسی کے پاس اس امر کی کیا دلیل ہے کہ حضرت حسین کے قاتل کو توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوئی اور وہ توبہ کیے بغیر ہی مرگیا ہے جب کہ اللہ کا در توبہ ہر وقت وا ہے۔﴿ وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ﴾(الشوری: ۲۵/۴۲) بہرحال کسی لحاظ سے بھی ایسے مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں جو مرچکا ہو، جو شخص کسی مرے ہوئے مسلمان پر لعنت کرے گا وہ خود فاسق اور اللہ کا نافرمان ہے۔ اگر(بالفرض)لعنت کرنا جائز بھی ہو لیکن وہ لعنت کی بجائے سکوت اختیار کیے رکھے تو ایسا شخص بالاجماع گناہ گار نہ ہوگا بلکہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ایک مرتبہ بھی ابلیس پر لعنت نہیں بھیجتا تو قیامت کے روز اس سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تو نے ابلیس پر لعنت کیوں نہیں کی؟ البتہ اگر کسی نے کسی مسلمان پر لعنت کی تو قیامت کے روز اس سے ضرور پوچھا جاسکتا ہے کہ تو نے اس پر لعنت کیوں کی تھی؟ اور تجھے یہ کیوں کر معلوم ہوگیا تھا کہ وہ ملعون اور
Flag Counter