Maktaba Wahhabi

85 - 108
سے ان کے بیٹے صالح نے کہا ألا تلعن یزید؟ آپ یزید کو لعنت کیوں نہیں کرتے؟ حضرت امام نے جواب دیا: "متیٰ رأیت أباک یلعن أحداً " تو نے اپنے باپ کو کسی پر بھی لعنت کرتے کب دیکھا تھا۔‘‘ قرآن کریم کی آیت: فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ O أُوْلَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْO﴾(محمد ۲۲/۴۸۔۲۳) ’’کیا تم سے بعید ہے کہ اگر جہاد سے پیٹھ پھیرلو تو لگو ملک میں فساد کرنے اور اپنے رشتے توڑنے یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو بہرا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا ہے۔‘‘ سے خاص یزید کی لعنت پر اصرار کرنا خلاف انصاف ہے۔کیونکہ یہ آیت عام ہے اور اس کی وعید ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو ایسے افعال کے مرتکب ہوں جن کا اس آیت میں ذکر ہے یہ افعال صرف یزید ہی نے نہیں کیے بلکہ بہت سے ہاشمی، عباسی،علوی بھی ان کے مرتکب ہوئے ہیں۔اگر اس آیت کی رو سے ان سب پر لعنت کرنا ضروری ہو تو اکثر مسلمانوں پر لعنت ضروری ہوجائے گی۔کیوں کہ یہ افعال بہت عام ہیں مگر یہ فتویٰ کوئی بھی نہیں دےسکتا۔ قاتلین حسین کے متعلق روایات: رہی وہ روایت جو بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل آگ کے تابوت میں ہوگا۔اس اکیلے پر آدھی دوزخ کا عذاب ہوگا اس کے ہاتھ پاؤں آتشی زنجیروں سے جکڑے ہوں گے وہ دوزخ میں الٹا اتارا جائے گایہاں تک کہ اس کی تہ تک پہنچ جائے گا اور اس میں اتنی سخت بدبو ہوگی کہ دوزخی تک اللہ سے پناہ مانگیں گے وہ ہمیشہ دوزخ میں پڑا جلتا رہے گا۔‘‘ تو یہ روایت بالکل جھوٹی ہے اورا ن لوگوں کی بنائی ہوئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت باندھنے سے نہیں شرماتے۔کہاں آدھی دوزخ کا عذاب، اور کہاں ایک حقیر آدمی؟
Flag Counter