Maktaba Wahhabi

103 - 108
انکار کردیا اور کہا: "میں نے رسول اللہ کو خواب میں دیکھا ہے، انہوں نے مجھے ایک کام کرنے کا حکم دیا ہے، جسے میں بہرصورت کروں گا۔" عبداللہ بن جعفر اور یحییٰ بن سعید نے کہا،وہ خواب کیا ہے؟ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کہا: "میں اسے کسی کے سامنے بیان نہیں کروں گا، تاآنکہ میں اپنے رب عزوجل سے جاملوں۔"(البدایۃ والنہایۃ، ۱۶۹/۸، الطبری، ۲۹۱/۴۔۲۹۲) نظر بازگشت: حضرت معاویہ کی وفات کے بعد یزید کی بیعت کا جو مسئلہ سامنے آیا جس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ سمیت صرف چار اشخاص نے اختلاف کیا۔ان میں سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے مدینے میں بیعت لینے کا مطالبہ کیا گیا، لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اس معاملے کو مؤخر کردیا اور پھر وہاں سے مکہ تشریف لے گئے، مکے میں بھی ان سے تعرض نہیں کیا گیا۔گویا دونوں شہروں میں ان کے احترام ووقار کو ملحوظ رکھا گیا، ان پر کسی قسم کی سختی کی گئی نہ ان سے کوئی باز پرس ہی ہوئی۔نرمی اور عزت واحترام کا یہ معاملہ یزید کی اجازت یا رضامندی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔معلوم ہوتا ہے کہ یزید نے اس وصیت کو اپنے سامنے رکھا جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی بابت بطور خاص کی تھی، یہ وصیت حسب ذیل تھی۔ ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے،رسول اللہ کی صاحبزادی فاطمہ رضیاللہ عنہا کے جگر گوشے،حسین رضی اللہ عنہ،کا خیال رکھنا، وہ لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں، پس ان کے ساتھ صلہ رحمی اور نرمی کا معاملہ کرنا، اس سے تیرے لیے ان کا معاملہ درست رہے گااوراگر ان سے کسی چیز کا صدور ہوا تو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ان سے ان لوگوں کے ذریعے سے کافی ہوجائے گا جنہوں نے اس کے باپ کو قتل کیا اور اس کے بھائی کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔’‘(البدایہ ۴۶۱/۸) اس نرم پالیسی ہی کا نتیجہ تھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے عزم ِ کوفہ میں کوئی لچک پیدا نہیں ہوئی اور خیرخواہوں کے سمجھانے کے باوجود انہوں نے اپنے ارادے میں تبدیلی کی ضرورت
Flag Counter