Maktaba Wahhabi

68 - 108
ہوگئے اور یہی یزید کی سلطنت کا پہلا سال ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر: بلاشبہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یزید سے اختلاف کیا اور باشندگان مکہ وحجاز نے ان کا ساتھ دیا لیکن یہ واقعہ ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے خلافت کا دعوی یزید کی زندگی میں نہیں کیا بلکہ اس کے مرنے کے بعد کیا۔یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ شروع شروع میں اختلاف کرنے کےباوجود عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ یزید کے جیتے جی ہی اس کی بیعت پر رضا مند ہوگئے تھے مگر چونکہ اس نے یہ شرط لگا دی تھی کہ قید ہوکر ان کے حضور میں حاضر ہوں اس لیے بیعت رہ گئی اور باہم جنگ برپا ہوئی۔پس اگرچہ یزید تمام بلاد اسلامیہ کا حکمران نہیں ہوا۔اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا ماتحت علاقہ اس کی اطاعت سے برابر گشتہ رہا، تاہم اس سے اس کی بادشاہت اور خلافت میں شبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ خلفائے ثلاثہ ابو بکر، عمر، عثمان اور پھر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم،عبدالملک بن مروان اور اس کی اولاد کے سوا کوئی بھی اموی یا عباسی خلیفہ پورے بلاد اسلامیہ کا تنہا فرمانروا نہیں ہوا۔حتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں بھی تمام دنیائے اسلام کی حکومت نہ تھی۔ بادشاہوں پر خلیفہ کا اطلاق؟ پس اگر اہل سنت ان بادشاہوں میں سے کسی کو خلیفہ یا امام کہتے ہیں تو اس سے مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے میں خودمختار تھا، طاقتور تھا، صاحب سیف تھا۔عزل ونصب کرتا تھا، اپنے حکام کے اِجراء کی قوت رکھتا تھا۔حدود شرعی قائم کرتا تھا کفار پر جہاد کرتا تھا۔یزید کو بھی امام و خلیفہ کہنے سے یہی مطلب ہے اور یہ ایک ایسی واقعی بات ہے کہ اس کا انکار غیر ممکن ہے۔یزید کے صاحب اختیار بادشاہ ہونے سے انکار کرناایسا ہی ہے جیسے کوئی اس واقعے سے انکار کردے کہ ابو بکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم حکمران نہیں تھے یا یہ کہ قیصر و کسریٰ نے کبھی حکومت نہیں کی۔ یہ "خلفاء "معصوم نہ تھے: رہا یہ مسئلہ کہ یزید،عبدالملک، منصور وغیرہ خلفاء نیک تھے یا بد؟ صالح تھے یا فاجر؟ تو علماء اہل سنت نہ انہیں معصوم
Flag Counter