Maktaba Wahhabi

73 - 108
کے جاری رہنے سے زیادہ اس کے ختم ہوجانے میں مصلحت ہے۔پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی کربلا پہنچ کر جنگ سے بیزار اور سرے سے دعویٰ ٔ امارت وخلافت ہی سے دستبردار ہوگئے تھے اور کہتے تھے’’مجھے وطن لوٹ جانے دو۔‘‘ اطاعت فی المعروف: اب یہ بات صاف ہوگئی کہ یزید کا معاملہ کوئی خاص جداگانہ معاملہ نہیں بلکہ دوسرے مسلمان بادشاہوں کا سا معاملہ ہے یعنی جس کسی نے طاعت الہٰی مثلاً نماز، حج، جہاد، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور اقامت حدود شرعیہ میں ان کی موافقت کی اسے اپنی اس نیکی اور اللہ ورسول کی فرمانبرداری پر ثواب ملے گا۔چنانچہ اس زمانے کے صالح مؤمنین مثلاً حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کا یہی طریقہ تھا۔لیکن جس نے ان بادشاہوں کے جھوٹ کی تصدیق کی، اور ان کے ظلم میں مددگار ہوا، وہ گناہ گار ہوا اور زجر وتوبیخ اور مذمت اور سزا کا سزاوار۔یہی باعث ہے کہ صحابہ ٔ کرام یزید وغیرہ امراء کی ماتحتی میں جہاد کو جاتے تھے۔چنانچہ جب یزید نے اپنے باپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی زندگی میں قسطنطنیہ کا غزوہ کیا تو اس کی فوج میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی شریک تھے۔یہ مسلمانوں کی سب سے پہلی فوج ہے جس نے قسطنطنیہ کا غزوہ کیا[1]اور صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ))(صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب ما قیل فی قتال الروم، ح:۲۹۲۴) ’’جو فوج سب سے پہلے قسطنطنیہ کا غزوہ کرے گی وہ مغفور یعنی بخشی بخشائی ہے۔‘‘ یزید کے بارے میں افراط وتفریط: اس تفصیل کے بعد اب ہم کہتے ہیں کہ یزید کے بارے میں لوگوں نے افراط وتفریط سے کام لیا ہےایک گروہ تو اسے خلفائے راشدین اور انبیائے مقربین میں سے سمجھتا ہے اور یہ سراسر غلط
Flag Counter