Maktaba Wahhabi

87 - 108
جائے گا۔مثلاً اگر کوئی ہاشمی چوری کرے تو یقیناً اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔اگر زنا کا مرتکب ہوتو سنگسار کردیا جائے گا۔اگر جان بوجھ کر کسی بے گناہ کو قتل کرڈالے تو قصاص میں اس کی بھی گردن ماری جائے گی۔اگرچہ مقتول حبشی، رومی،ترکی دیلمی غرض کوئی بھی ہو۔کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ)) (سنن أبی داؤد، الجہاد، باب فی السریۃ۔۔۔، ح:۲۷۵۱) ’’یعنی تمام مسلمانوں کا خون یکساں حرمت رکھتا ہے۔‘‘ پس ہاشمی وغیر ہاشمی کا خون برابر ہے۔ اسلامی مساوات: نیز فرمایا: ((إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللّٰهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا))(صحیح البخاری،أحادیث الأنبیاء، باب:۵۴، ح:۳۴۷۵ وصحیح مسلم، الحدود، باب قطع السارق الشریف وغیرہ۔۔۔، ح:۱۶۸۸) ’’اگلی قومیں اس طرح ہلاک ہوئیں کہ جب ان میں کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو چھوڑ دیا جاتا تھا۔لیکن جب معمولی آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی تھی۔واللہ! اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔‘‘ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریح کردی ہے کہ اگر آپ کا قریب سے قریب عزیز بھی جرم سے آلودہ ہوگا تو اسے شرعی سزا ضرور ملے گی۔ کسی خاندان کی خصوصیت ثابت نہیں: پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ کر اپنے خاندان کو خصوصیت دیں کہ جو ان کا خون بہائے گا۔اس پر اللہ کا غصہ بھڑکے گا۔کیونکہ یہ بات پہلے ہی مسلم ہے کہ ناحق قتل شریعت میں حرام ہے، عام اس سے کہ ہاشمی کا ہو یاغیر ہاشمی کا:
Flag Counter