بسم اللہ الرحمن الرحیم سبب تألیف میں نے حنفی گھرانے میں آنکھ کھولی اور حنفی گھرانے ہی میں پرورش پائی حنفی معاشرے میں زندگی گزاری اور اسی طرح حنفی جامعہ سے تعلیم حاصل کی اسی لئے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتا آیا، کیونکہ میرا سب سے بڑا محسن جو میرا سبب وجود ہے وہ حنفی ہے۔ اس کے بعد میرے اساتذہ کرام جنہوں نے مجھے علم و دانائی سکھائی وہ بھی سب حنفی تھے اسی وجہ سے حنفی مذہب میرے دل و دماغ میں راسخ ہو گیا ۔ اسی لئے لاشعوری طور پر میں وہی کہتا جو صاحب ردالمختار نے کہا ہے: (الحق ما نحن علیہ و الباطل ما علیہ خصومنا) ترجمہ : حق وہی ہے جس پرہم ہیں اور جس پر ہمارے مخالفین ہیں وہ باطل ہے۔ اسی لئے کبھی تحقیق کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ کہاں تک ہم حق پر ہیں کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی عظمت اور عمدہ فقاہت اور تقدم کو دیکھ کر ہر حدیث جو ان کے مذہب کے خلاف ہوتی ، ہیچ معلوم ہوتی اور جسم میں کانٹوں کی طرح چبھتی اور پھر اس سے راہِ فرار حاصل کرنے کیلئے جو اصول و طریقے سیکھے تھے سارے اس پر منطبق کر دیتے تھے۔ شمع شعور کب روشن ہوئی؟ جب بندہ ناچیز چوتھی کلاس میں تھا اور فقہ کی کتاب شرح الوقایہ پڑھ رہا تھا اور استاذ محترم عبدالقیم حفظہ اللہ اذان کے مسئلہ پر بحث فرما رہے تھے ، اس دوران ایک طالب علم نے ان سے یہ سوال کیا کہ بلال رضی اللہ عنہ تہجد کیلئے اذان دیتے تھے ، اس پر ہمارا عمل کیوں نہیں ہے۔ تو اس پر استاذ کا جواب یہ تھا کہ یہ ہمارا مذہب نہیں ہے، امام شافعی کا مذہب ہے ۔ اس دن سے میرے دل میں یہ کھٹکا ہوا کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلال رضی اللہ عنہ کا اذان دینا صحیح ہے اور ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے اور دوسری بات میں نے یہ دیکھی کہ ہر مسئلہ پر امام شافعی رحمہ اللہ |