قارئین کرام! اب آپ خود فیصلہ کریں کہ حکم اللہ تعالیٰ کا مانیں یا میر محمد صاحب کا ۔میر محمد صاحب کہتے ہیں تقلید کرتے ہوئے دلیل نہ طلب کرو اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے دلیل کے بغیر عمل نہ کرو۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ میر محمد صاحب اللہ تبارک وتعالیٰ سے جھگڑ رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے قوانین رد کرنے اور اپنے مذموم قوانین نافذ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ (اﷲ یھدیہ إلی صراط مستقیم)۔ احناف کا لفظ اعتبار سے قیاس مراد لینا ووجوب الاعتبار أی القیاس حکم مع انہ لیس من افعال الجوارح (التوضیح والتلویح ص ۳۲)۔ ترجمہ: اعتبار کا واجب ہونا یعنی قیاس ( یہ اللہ تعالیٰ کا ) حکم ہے اس کے باوجود کہ یہ حکم افعال جوارح میں سے نہیں ہے ۔ یعنی احناف کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿فَاعْتَبِرُوْا یَا أولِي الأبْصَارِ﴾ کے معنی قیاس کرو ا ے عقل مندو۔ تو پتہ چلا قیاس کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے دیکھئے (اصول البزدوی ص ۲۵۰، نور الأنوار ص ۲۲۴)۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ احناف کا یہ دعویٰ کہاں تک صحیح ہے، سورۃ مؤمنون میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ﴿وَاِنَّ لَکُمْ فِی الأنْعَامِ لَعِبْرَۃٌ ﴾ (مؤمنون ۲۱) ترجمہ: ’’ تمہارے لئے ان جانوروں میں عبرت ہے ۔‘‘ اگر احناف کے مذہب کے مطابق یہاں پر معنی قیاس کا کیا جائے تو مطلب ہو گا ’’تمہارے لئے ان جانورون میں قیاس کرنا ہے ‘‘ پھر تو مطلب یہ ہوا کہ جس طرح جانور کرتے ہیں تم بھی اسی طرح کرو نہ کھانے پینے میں کوئی پابندی جو دل میں آئے کھاؤ پیو اور نہ شادی بیاہ میں ۔جس سے چاہو نکاح کرلو جس طرح جانوروں کا کوئی حساب کتاب نہیں اسی طرح تمہارا بھی کوئی حساب کتاب نہیں ہو گا۔میرے خیال میں اس قیاس پر کسی حنفی کا عمل نہیں ہے۔ اسی طرح سورۃ نور میں ہے: ﴿یُقَلِّبُ اللّٰہُ اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَعِبْرَۃٌ لأولِي الأبْصَارِ﴾ (آیت ۴۴) اللہ تعالیٰ بادلوں میں اپنی قدرت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے وہی ذات رات اور دن کو پھیرتی رہتی ہے بیشک عقلمندوں کے لئے اس میں عبرت ہے ۔ |