ہوتی ہے اور رسول کے علاوہ دوسروں کی تقلید ہوتی ہے۔ فافھم وتدبر ولا تکن من الغافلین۔ میر صاحب کا موسیٰ علیہ السلام کو خضر علیہ السلام کا مقلد قرار دینا لکھتے ہیں ’’ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام بامر خداوندی جناب خضر علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے تو آداب مقلدانہ بجا لاکر فرمایا:۔ ﴿ھَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰی اَنْ تُعَلِّمَنِی مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا﴾ ترجمہ کرتے ہیں۔ کیا میں اس شرط پر آپ کا مقلد اور متبع بن سکتا ہوں کہ اپ اپنی سکھائی گئی تعلیم کے رشدو علم سے مجھے بھی کچھ قدر بتا دیں۔ جواب: جناب میر محمد صاحب آ پ کی عبارت کا پہلا حصہ دوسرے حصہ کے متضاد ہے۔ آپ نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام بأمر خداوندی جناب خضرعلیہ السلام کی خدمت میں پہنچے ۔ تو یہ ثابت ہوا کہ ان کی خدمت میں جانا یہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جو کام اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا جاتا ہے وہ اتباع ہوتی ہے نہ کہ تقلید تو پھر اس عبارت میں آپ کا یوں کہنا کہ آداب مقلدانہ کو بجا لاتے ہوئے یہ بالکل ہٹ دھرمی اور سینہ زوری ہے۔ پھر آگے جا کر اس آیت کے ترجمہ میں مقلد اور متبع دونوں لفظ استعمال کئے ہیں کیوں کہ آپ کو معلوم ہے کہ نبی کبھی کسی کا مقلد نہیں ہوتا اس لئے آپ نے لفظ متبع کو ذکر کر دیا ہے تا کہ کوئی آپ پر اعتراض نہ کر سکے۔ اور ویسے بھی اس آیت سے آداب مقلد نہیں بلکہ آداب متعلم ثابت ہوتے ہیں جس پر آیت خود دلالت کرتی ہے۔ ﴿ھَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰی اَنْ تُعَلِّمَنِی مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا﴾ اور اس آیت کے بارے میں جمہور مفسرین یہی کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کا یہ سفر تحصیل علم کے لئے تھا نہ کہ تقلید کے لئے اور آپ نے ابھی ابھی جان لیا کہ علم اور تقلید دونوں متضاد چیزیں ہیں ۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جس آیت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں علم کی اہمیت بیان کر نے کے لئے ذکر کیا ہے اس آیت سے میر محمد صاحب نے غالیانہ طریقے سے تقلید کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے ۔ اصل بات تو |