Maktaba Wahhabi

15 - 108
((صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا))(مسند احمد بتحقیق احمد شاکر،ح: ۲۱۵۴ و مجمع الزوائد: ۴۳۴/۳، مطبوعۃ دارالفکر، ۱۴۱۴ھ/۱۹۹۴ء) ایک اور حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورے کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، تو صحابہ نے آپ کو بتلایا کہ یہ دن تو ایسا ہے جس کی تعظیم یہود و نصاریٰ بھی کرتے ہیں،اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ))(صحیح مسلم، الصیام، باب ای یوم یصام فی عاشوراء، ح؛ ۱۱۳۴) ’’اگرمیں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں محرم کا روزہ(بھی)رکھوں گا۔‘‘ لیکن اگلا محرم آنے سے قبل ہی آپ اللہ کو پیارے ہوگئے، صلی اللہ علیہ وسلم۔ ایک ضروری وضاحت: بعض علماء کہتے ہیں کہ’’میں نویں محرم کا روزہ رکھوں گا’‘کا مطلب ہے کہ صرف محرم کی ۹ تاریخ کا روزہ رکھوں گا یعنی دس محرم کا روزہ نہیں، بلکہ اس کی جگہ ۹ محرم کا روزہ رکھوں گا۔اس لیے وہ کہتے ہیں کہ اب صرف ۹ محرم کا روزہ رکھنا مسنون عمل ہے۔۱۰ محرم کا روزہ رکھنا بھی صحیح نہیں اور ۱۰ محرم کے ساتھ ۹ محرم کا روزہ ملا کر رکھنا بھی سنت نہیں۔بلکہ اب سنت صرف ۹ محرم کا ایک روزہ ہے۔لیکن یہ رائے صحیح نہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مطلب ہے کہ میں ۱۰ محرم کے ساتھ ۹ محرم کا روزہ بھی رکھوں گا، اسی لیے ہم نے ترجمے میں…بھی… کا اضافہ کیا ہے، کیونکہ ۱۰ محرم کا روزہ تو آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نجات پانے کی خوشی میں رکھا تھا، اس اعتبار سے ۱۰ محرم کے روزے کی مسنونیت تو مسلم ہے، لیکن یہودیوں کی مخالفت کے لیے آپ نے اس کے ساتھ ۹ محرم کا روزہ رکھنے کی خواہش کا اظہار فرمایا جس پر عمل کرنے کا موقع آپ کونہیں ملا۔بعض دیگر روایات سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے،اسی لیے صاحب مرعاۃ مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ امام ابن قیم رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی مفہوم کو زیادہ صحیح اور راجح قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: مرعاۃ المفاتیح، ۲۷۰/۳، طبع قدیم)
Flag Counter