بسم اللّٰه الرحمن الرحیم پیش لفظ إن الحمد للّٰه نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونعوذ باللّٰه من شرور أنفسنا ومن سیئات أعمالنا۔من یھدہ اللّٰه فلا مضل لہ ومن یضللّٰه فلا ھادی لہ۔ وأشھد ان لا إلہ إلا اللّٰه وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ وصلی اللّٰه علی إمام الأنبیاء والمرسلین وعلی ألہ وصحبہ أجمعین وعلی من تبعھم بإحسان ودعا بدعوتھم إلی یوم الدین۔ أما بعد‘ فقد قال اللّٰه تعالی فی کتابہ الکریم : ﴿اتَّبِعُوْا مَا أنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رَّبِّکُمْ وَلا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ أوْلِیَائَ قَلِیْلا ً مَّا تَذکَّرُوْنَ﴾(الأعراف۔۳) وقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم :( ترکتکم علی بیضاء لیلھا کنھارھا لا یزیغ عنھا بعدی الا ھالک [1] کچھ عرصہ پہلے ایک کتاب بنام ( ترویحات خمسہ) جو کہ حکیم میر محمد ربانی صاحب کی تصنیف ہے اور اسی طرح ایک اور کتاب (أغراض الجلالین) جس کے مصنف عبدالغنی جاجروی صاحب ہیں، نظر سے گزری۔ ان دونوں کتابوں کے مصنفین نے اپنے اپنے غالیانہ اور متعصبانہ انداز سے تقلید کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے بلکہ یہاں تک کہ لکھ دیا ہے کہ پہلا غیر مقلد بن کر ظاہر ہونے والا شخص شیطان تھا۔اور یہی دعویٰ مفتی محمد ولی درویش صاحب (استاذ جامعۃ العلوم الإسلامیۃ بنوری ٹاؤن ۔کراچی)نے اپنی کتاب ( کیا نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا سنت ہے) میں کیا ہے ۔بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مزے کی بات یہ ہے کہ میر محمد صاحب نے موسیٰ علیہ السلام کو خضر علیہ السلام کا مقلد ثابت کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اس بحث کو لے کر آگے چلوں قارئین کرام کو یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ تقلید کسے کہتے ہیں اور اس کی کیا تعریف ہے اور کیا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تقلید کی اجازت دی ہے یا نہیں ۔اور اسی طرح علمائے أحناف اور غیر أحناف سلف کے نزدیک تقلید کی کیا حیثیت تھی اور اس کے بارے میں ان کی کیا رائے تھی ۔ |