کے مذہب کو غلط ثابت کیا جاتا تھا اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کو صحیح۔ ان تمام حالتوں کو دیکھ کر دل میں یہ بات آئی کہ ضرور کوئی حقیقت چھپائی جا رہی ہے ۔ اس بات کا یقین اس وقت ہوا جب میرے والد محترم نے مجھے بار بار تلقین کی کہ باہر کی کتابیں بالکل نہ پڑھنا فقط درسی کتب پر توجہ دینا لیکن بتقاضہ (بنو آدم حریص فیما منع) ہر مسئلہ کیلئے چاروں مذہبوں کی کتابیں دیکھنا ضروری سمجھتا تھا اور جب ان کتابوں کی طرف رجوع کرتا تو حقیقت کچھ اور پاتا۔ بہر حال یہ انسان پر بہت مشکل ہے کہ وہ اس مذہب کو چھوڑ دے جو اس کے باپ دادا اور اساتذہ کرام کا مذہب ہو لیکن کیا یہ عذر اللہ کو قبول ہے اور کیا یہ سبب نجات بن سکتا ہے؟ اور جب کوئی باطل عقیدہ والا ہمارے سامنے یہ عذر رکھ دے تو کیا ہم اسے یہ کہہ کر قبول کر لیتے ہیں کہ تم اپنے محسنین کے مذہب پر باقی رہو، قائم رہو کیونکہ یہ بزرگ تمہارے خیر خواہ ہیں ؟ ہرگز نہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہم اپنے لئے اس کو کیسے دلیل بنا لیتے ہیں ؟ کیا ہمیں اس آیت سے ڈر نہیں لگتا : اِذْ تَبَرَّأَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَرَأَ وُاالْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الأَسْبَابُ وَقَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ أَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّأُ مِنْہُمْ کَمَا تَبَرَّؤُا مِنَّا۔ (سورۃ البقرۃ ۱۶۶) ترجمہ : ’’جس وقت پیشوا لوگ اپنے تابعداروں سے بیزار ہو جائیں گے اور عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور کل رشتہ ناطے ٹوٹ جائیں گے اور تابعدار لوگ کہنے لگیں گے کاش ہم دنیا کی طرف دوبارہ جائیں تو ہم بھی ان سے ایسے ہی بیزار ہو جائیں جیسے یہ ہم سے ہیں۔‘‘ بہر حال پھر رفتہ رفتہ حدیث کی طرف میرا رجحان بڑھتا گیا اور مذہب حدیث کو سینے سے لگا لیا لیکن اس کی سزا مجھے میرے اساتذہ نے یہ دی کہ مجھے بخاری شریف اور دیگر حدیث کے دروس سے نکال دیا اور بغیر سند کے جامعہ سے رخصت کر دیا ۔ ھذا جزاء من اتخذ الحدیث مذھبہ یہ ہے تقلید اور مقلدین کی حقیقت جس میں ہم عرصہ دراز سے غوطے لگا رہے تھے ۔آیئے اب اس کتاب کو پڑھ کر کچھ اپنے بارے میں بھی فیصلہ کیجئے۔ واللّٰه یھدی الی سواء السبیل ۔ بقلم،محمود الحسن الجمیری سابق طالب علم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی |