اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے سامنے کسی صحابی کا قول یا فعل حجت نہیں تھا۔ تقلید کے رَدّ میں احناف کے اقوال صاحب مسلم الثبوت لکھتے ہیں: إذلا واجب إلا ما أوجبہ اللّٰه ولم یوجب علی أحد أن یتمذھب بمذھب رجل من الائمۃ (مسلم الثبوت ص ۳۵۵ ج۲) أجمع المحققون علی منع العوام من تقلید الصحابۃ ( مسلم الثبوت ج۲ ص ۲۵۶) ترجمہ: عمل وہی واجب ہے جو اللہ نے واجب کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے کسی پر بھی کسی امام کے مذہب کو واجب نہیں کیا۔ محققین کا اس بات پر اجماع ہے کہ عوام کے لئے صحابہ کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے۔ ان کی تقسیم عجیب ہے امام کی تقلید کو تو اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں اور جو صحابہ کرام علم اور تقویٰ میں امام سے کئی گنا بڑھ کر ہیں ان کی تقلید سے عوام کو منع کرتے ہیں۔﴿تِلْکَ اِذًاقِسْمَۃٌ ضِیْزٰی﴾ یہ تقسیم تو بڑی ظالمانہ ہے۔ ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں ۔ ان اللّٰه لم یکلف أحداً أن یکون حنفیا أو مالکیا أو شافعیا أو حنبلیا بل کلفھم أن یعملوا بالسنۃ (شرح عین العلم ص ۳۲۶) اللہ تعالیٰ نے کسی کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ وہ حنفی یا شافعی یا مالکی یا حنبلی بنے بلکہ اللہ تعالیٰ نے سب کو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کا مکلف بنایا ہے۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کیا خود اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنی تقلید کا حکم دیا ہے یا نہیں ۔ سئل أبو حنیفۃ إذا قلت قولا وکتاب اللّٰه یخالفہ: قال أترکوا قولی بکتاب اللّٰه قال إذا قلت قولا وحدیث رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یخالفہ قال اترکوا قولی بخبر الرسول ( عقد الجید ص۴۵) اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اگرآپ کا کوئی قول اللہ تعالیٰ کی کتاب کے خلاف ہو تو کیا |