Maktaba Wahhabi

41 - 49
متصرف ہے ۔ جس کے پاس تھوڑی بھی عقل و شعور ہو اس چیز کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ عبرت کے معنی قیاس نہیں ہیں ۔ کیوں کہ یہ پھر قرآن کریم کی تکذیب ہو گی جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو قیاس کے لئے کبھی استعمال نہیں کیا۔ قیاس کی بنیاد کس نے ڈالی؟ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ قیاس شریعت نہیں ہے ۔ بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت مطہرہ پر ایک دھّبہ ہے ۔کیونکہ قیاس سے حرمت اور حلت ثابت نہیں ہوسکتی۔ احناف یہ کہتے ہیں کہ ہم قیاس کو مثبت للحکم نہیں مانتے بلکہ مظہر للحکم مانتے ہیں ۔یعنی قیاس کسی چیز پر حکم نہیں لگاتا بلکہ جو حکم پوشیدہ ہے اس کو ظاہر کر دیتا ہے ۔تو عرض یہ ہے کہ یہ محض ایک باطل دعویٰ ہے ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ اگر یہ مظہر للحکم ہوتا تو یہ آپس کے قیاس میں کبھی اختلاف نہیں کرتے کیوں کہ حکم تو ایک ہی ہو گا دو نہیں یہاں تو ایک ہی چیز پر چار چار حکم لگ رہے ہیں تو پتہ چلا کہ قیاس مثبت للحکم ہے نہ کہ مظہر للحکم۔ اور یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ کسی چیز کو حرام یا حلال قرار دینا یہ صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے کسی ملک مقرب یا نبی مرسل کو بھی اس بات کا حق نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کو اپنی طرف سے حرام یا حلال کہے ‘چہ جائیکہ مجتہد۔اس بات کا حق ناکسی نبی کو ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿یَاأیُّھَاالنَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاأحَلَّ اللّٰہ لَکَ﴾ ترجمہ:اے نبی کیوں حرام کرتا ہے اس چیز کو جس کو اللہ نے حلال کیا تیرے لی۔ اور ناہی کسی مجتہد کو جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلاتَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ ألْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلالٌ وَھٰذَا حَرَام ٌلِتَفْتَرُوْا عَلٰی اللّٰہِ الْکَذِبَ﴾ (سورۃ النحل ۱۱۶) ترجمہ: کسی چیز کو اپنی زبانوں سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ لو ۔ اور جس نے قیاس کے ذریعہ کسی چیز کو حرام یا حلال قرار دیا ہے گویا کہ اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے
Flag Counter