تحمل علی التأویل من جھۃ التوفیق۔ (اصول الکرخی ص ۸)۔ ترجمہ: ہر وہ آیت جو ہمارے فقہاء کے قول کے خلاف ہو گی اسے یا تو نسخ پر محمول کیا جائے گا یا ترجیح پر محمول کیا جائے گا اور بہتر یہ ہے کہ اس آیت کو تاویل پر محمول کیا جائے تا کہ توافق ظاہر ہو جائے۔ اسی طرح لکھتے ہیں :۔ ان کل خبر یجيء بخلاف قول أصحابنا فانہ یحمل علی النسخ أوعلی أنہ معارض بمثلہ (اصول الکرخی ص۲۹) ترجمہ : بیشک ہر اس حدیث کو ، جو ہمارے اصحاب (یعنی فقہاء احناف) کے خلاف ہو گی ، نسخ پر محمول کی جائے گی یا یہ سمجھا جائے گا کہ یہ حدیث اس جیسی کسی دوسری حدیث کے خلاف ہے۔ بالکل یہی اصول کفار قریش نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا تھا کہ جو کچھ قرآن میں ہمارے عقیدے کے خلاف ہے اس کو منسوخ کر دو یعنی مٹادو پھر ہم تمہاری بات مانیں گے اور تم پر ایمان لائیں گے۔ اعاذنا اللّٰه من مثل ھذا التحریف۔ میر محمد صاحب کا فرشتوں کو آدم علیہ السلام کا مقلد قرار دینا اب آئیے ہم اپنی بحث کی طرف لوٹتے ہیں جس میں میر محمد ربانی صاحب نے ابلیس ملعون کو غیر مقلد ثابت کیا ہے لکھتے ہیں ۔ جب آدم علیہ السلام اپنے وقت کے خلیفہ بمعنی امام اعظم ثابت ہوئے تو ان کی تقلید و اطاعت کرنے والے فرشتگان تھے اور مقلدین آدم علیہ السلام کے نام سے موسوم ہوئے اور پہلے مقلدین قرار پائے اور ان کی تقلید و اطاعت سے بھاگنے والا ابلیس تھا جو پہلا غیر مقلد بن کر سامنے آیا۔ بعینہٖ اسی طرح امت محمدیہ کے امام اعظم جناب ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید و اتباع سے بھاگنے والوں کے نام غیر مقلدین ہے جو ابلیس لعین کی تقلید اتباع کو بخوشی اور عمداً اپناتے ہیں لیکن امام اعظم کی تقلید سے گھبراتے ہیں اور احناف کرام امام اعظم کے مقلدین ہیں اور فرشتگان کی مانند اپنے امام اعظم کی تقلید کو اپنانے والے ہیں اب نتیجہ اور خلاصہ کلام یہ رہا کہ امام اعظم کا منکر یا ابلیس ہے یا ابلیس کا یار ہے۔ اور ان کا مقلد یا فرشتہ ہے یا فرشتوں کا پیروکار ہے۔ انتھٰی جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے آدم علیہ السلام کو خلیفہ یعنی امام اعظم مان لیا ہے تو دیکھیے ‘خلیفہ کسے کہتے ہیں ؟ |